فوجی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم PTI کے گلے پڑنے کا امکان
عمران خان کی سول نافرمانی کی کال کے بعد یوتھیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فوجی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کر دی ہے اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ مختلف فوجی مصنوعات کے بائیکاٹ بارے سب سے پہلے بیرون ملک مقیم یوتھیے رہنما شہباز گل نے ٹوئٹ کیا جس میں وہ یوتھیوں کو اس حوالے سے ان الفاظ میں ترغیب کرتے دکھائی دئیے کہ
’میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر گواہی دیتا ہوں کہ میں فلاں شخص نے ہر قسم کی فوجی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔‘
شہباز گل کے ٹوئٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ خالی جگہ میں اپنا نام لکھ کر اس سٹیٹمنٹ کو سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کر یں اور اس حلف کی پابندی کریں۔ جس کے بعد اب فیس بک، اور ٹوئٹر سمیت مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹس پر یوتھیے باقاعدہ اس مہم کی تشہیر کرتے اور اس سٹیٹس کو اپنی وال کا حصہ بناتے نظر آ رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق سمندر پار بیٹھے یوتھیوں کی اس انقلابی مہم سے پی ٹی آئی ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں بلکہ اپنا پاؤں کلہاڑی پر مارنے جا رہی ہے یہ بائیکاٹ مہم تحریک انصاف کے لیے بہت ہی نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوگی۔ اس بائیکاٹ مہم کا تحریک انصاف کو نو مئی کی طرح کا ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ تجزیہ کار اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بیرون ملک مقیم انقلابیوں کی جانب سے جن مصنوعات کے بائیکاٹ کی خواہش ظاہر کی گئی ہے وہ کچھ زیادہ ہیں ہی نہیں۔ ایسے کون سے برانڈز ہیں جن کا بائیکاٹ کیا جائے؟ ڈی ایچ اے کا تو بائیکاٹ ہونے سے رہا۔ کوینکہ تحریک انصاف کے بیشتر رہنما، ارکان اسمبلی اور ڈونر حضرات کے گھر وہاں ہیں اور کوئی انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں ہوگا۔کہیں پر کوئی ایسی تحریر نہیں دیکھیں گے کہ میرا گھر ڈی ایچ اے میں تھا، مگر میں نے بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے بیچ کر کسی دوسری سوسائٹی میں مکان لے لیا۔ نہیں، یہ بیان دیکھنے کی حسرت ہی رہ جائے گی۔ باقی پھر کیا بچا؟ ایک آدھ کارن فلیکس کاڈبہ یا کوئی مکھن وغیرہ، بس۔ رہی کھاد تو وہ ڈالنا ہر ایک کی مجبوری ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کی بائیکاٹ مہم کبھی زیادہ کامیاب نہیں رہتی۔ ہمیشہ ابتدا میں لوگ جوش وخروش سے اعلانات کرتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پھر خاموشی سے وہ چیزیں استعمال ہونے لگتی ہے۔ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ تو ابھی تین، چار سال پہلے کی بات ہے۔ ابھی میکڈونلڈ وغیرہ کے بائیکاٹ ہی کو دیکھ لیں۔ وقت ملے تو کسی روز، کسی بھی شہر کے ایسے ریستوران میں جھانک کر دیکھ لیں، کتنا رش ہے؟ کچھ فرق نہیں پڑا۔ عالمی سطح پر ممکن ہے فرق پڑا ہو، پاکستان میں تو معاملہ کم وبیش وہی پرانا چل رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کو یہ بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ اصولی، منطقی اور سیاسی طور پر انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا کر کے وہ خود پر ایک فوج مخالف سیاسی جماعت ہونے کاٹیگ لگالیں گے۔ اس سے حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا، جبکہ اس سے انھیں دور رس نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف ایک الگ چیز ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے ویسے بھی سیاستدانوں کی گرمی سردی چلتی رہتی ہے۔تاہم اگر فوجی مصنوعات کے بائیکاٹ کی منظم مہم چلائی گئی تو یہ فوج سے اختلاف ہے۔ فوجی اداروں اور درحقیقت فوجی شہداء اور غازیوں کی مخالفت ہے کہ ان کاروباروں کا بڑا شیئر اس جانب جاتا ہے۔ جس کو فوجی قیادت قطعاً برداشت نہیں کرے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی سیاست میں آگے بڑھنے کے کئی راستے ہیں، مگر فورسز کی مخالفت کر کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ یہ ایک غیر عملی اور غیر دانشمندانہ حرکت ہوگی۔کیونکہ جب آپ اداروں کی مخالفت میں ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ تک چلے جاتے ہیں اور اپنے ہیروز، شہداء اور اپنے نجات دہندہ بہادروں اور دلاوروں کے جگمگاتے کرداروں پر بھی کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں تویہپستی کی انتہا ہوجائے گی۔ جسے دوسری طرف سے بھی معاف نہیں کیا جائے گا اور اس کا فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے واضح اور دوٹوک جواب ضرور آئے گا۔
عمران کی سول نافرمانی کی دھمکی کو گیدڑ بھبکی کیوں کہا جا رہا ہے؟
مبصرین کے مطابق پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اس حوالے سے مداخلت کرے، اس بائیکاٹ مہم سے فاصلہ کرنا چہیے اور اپنے کارکنوں، حامیوں کو بتانا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف اداروں کی مخالفت اور اپنے ہیروز کی نفی ہرگز نہیں۔ عمران خان کو بھی سمجھنا چاہیے کہ باہر بیٹھے فرسٹریٹڈ اینکر، جرنلسٹ اور دوسری تیسری صف کے سیاسی رہنما اپنی بھڑاس نکالنے اور اپنے پوائنٹ سکور کرنے کے چکر میں پی ٹی آئی کو نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ تحریک انصاف نے پہلے ہی آسان معاملات مشکل اور سنگین بنا لیے ہیں۔جو گرہیں ہاتھ سے کھل سکتی تھیں، اب وہ اس قدر سخت اور الجھ چکی ہیں کہ دانتوں سے کھولنا بھی آسان نہیں رہا۔ اگر کچھ کسر باقی ہے تو یہ غیر حکیمانہ بائیکاٹ مہم وہ سب پوری کر دے گی۔