سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مری مہم کیوں شروع کی گئی ہے؟
مری میں ہونے والی شدید برف باری کے دوران 24 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مری مہم کا آغاز کردیا گیا ہے۔ مہم چلانے والوں کا موقف ہے کہ مری میں ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری حکومت کے علاوہ ہوٹل مالکان پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے پیسے بٹورنے کے لالچ میں کمروں کے کرائے کئی سو گنا بڑھا دئیے اور مجبورا برف میں پھنسے لوگ اپنی گاڑیوں میں محصور ہونے پر مجبور ہوگے۔ چنانچہ یہی گاڑیاں شدید برفباری میں ان کے تابوت بن گئیں۔
خیال رہے کہ بائیکاٹ کی یہ مہم مری میں سیاحوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ شدید برفباری کے دوران ہوٹل کے کرائے اور دیگر ضروریات زندگی کے منہ مانگے دام وصول کرنے کے باعث سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہے۔
اردو نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی حالیہ شدید برفباری کے دوران تمام ہوٹل مالکان نے کرائے کئی سو گنا بڑھا دیے تھے؟ مری کے ایک ہوٹل پر کام کرنے والے عمیر عباسی نے بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ مری میں کئی ہوٹل مالکان نے کرائے بڑھا دیے تھے اور دیگر اشیا بھی مہنگی کر دی تھیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں اور مری میں صرف مقامی لوگوں کے ہوٹلز نہیں بلکہ دیگر علاقوں سے آ کر بھی لوگ یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ میں خود لاہور کے دو ایسے ہوٹل مالکان کو جانتا ہوں جنہوں نے اہنے کمروں کے کرائے ہوشربا حد تک بڑھا دیے تھے۔‘ لیکن عمیر عباسی نے تصویر کا دوسرا رُخ دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ مری کے بعض ایسے ہوٹل مالکان کو بھی جانتے ہیں کہ جیسے ہی انہیں حالات کا پتہ چلا انہوں نے ملازمین کو ہدایات جاری کیں کہ اگر کوئی مجبور ہو کر انکے پاس آتا ہے تو اس سے پیسے نہ لیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح یہاں ایک ایسا ہوٹل بھی ہے جس کی انتظامیہ نے اپنے ہوٹل میں برفباری کے متاثرین کے لیے سب کچھ فری کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو سانحے کے رونما ہوجانے کے ہوش آیا اور انہوں نے لوگوں سے گزارش کی کہ برفباری میں گاڑیوں میں پھنسے افراد کی مدد کی جائے۔ اس سے قبل ہی مری ہوٹل ایسوسی ایشن کے ذمہ داران یہ اعلان کر چکے تھے کہ ہوٹلوں میں آنے والے افراد کی ہر ممکن مدد کی جائے۔
نیب چئیرمین کو بچانے پر عمران خان نے یو ٹرن لے لیا
مری میں 24 افراد کی المناک موت اور امدادی کارروائیوں کے آغاز کے بعد حالات معمول کی طرف آنا شروع ہو گئے ہیں تاہم سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مری کا ٹرینڈ جاری ہے۔ متعدد سوشل میڈیا صارفین مری کو چھوڑ کر ملک کے دیگر سیاحتی مقامات جانے کا مشورہ دے رہے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ مری کا بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں۔
ٹوئٹر صارف تسمیہ مغل لکھتی ہیں کہ ’ہم سمجھدار لوگ ہیں ہم جانتے ہیں ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ گھر پر رہیں اور خود کو محفوظ رکھیں۔ ان دنوں مری میں ایک مافیا ہے جو ہر چیز دگنی قیمت پر بیچ رہے ہیں۔‘ بعض سوشل میڈیا صارفین بائیکاٹ کی مہم پر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔ انہی میں سے خرم میمن بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ ’بائیکاٹ کیوں؟ قواعد ضوابط کے تحت کیوں نہیں چلایا جا سکتا؟ اگر سیاحت ایک انڈسٹری ہے تو اس کو چلانے والے کہاں ہیں؟‘
انہوں نے لکھا کہ ’کرائے اور سہولیات کا فیصلہ کون کرے گا؟ یہ بے کار ٹرینڈ صرف ایڈمنسٹریشن کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہے۔ مری میں ہونے والی اموات کی بنیادی وجہ حکومت کی نااہلی ہے اور اس کا مدعا ہوٹل مالکان پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ ایک اور ٹوئٹر صارف طلال خان نے لکھا کہ ’ہم نے ماضی میں بھی کتنی بار مری کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی، ہر مرتبہ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن ہر حکومت اس مافیا کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہوٹل مالکان نے اپنی کرائے بڑھا دیئے تھے تو یہ بھی حکومت کی ناکامی اور نااہلی ہے جو صورت حال سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات نہ کر پائی۔