بشریٰ بی بی نے رہائی کی ڈیل توڑ دی، پارٹی ٹیک اوور کرنے کا منصوبہ
تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع دعوی کر رہے ہیں کہ عمران خان کی تیسری اہلیہ بشری بی بی نے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر نہ صرف فیصلہ سازوں سے ہونے والی اس ڈیل کی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت وہ جیل سے باہر آئی تھی بلکہ انہوں نے کپتان کی ہمشیرہ علیمہ خان کو بھی سائیڈ لائن کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو ٹیک اوور کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔
تحریک انصاف کے باخبر حلقے دعوی کر رہے ہیں کہ بشری بی بی کی رہائی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک ڈیل کے نتیجے میں طے پائی تھی جس کے تحت سابقہ خاتون اول نے رہائی پانے کے بعد خاموشی اختیار کرنا تھی اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بننا تھا۔ روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ڈیل وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے عمران خان کے ایما پر کرائی تھی۔ تاہم بشری نے رہائی کے فوری بعد خیبر پختون خواہ ہاؤس پشاور کو اپنا ہیڈ کوارٹر بناتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس وقت پارٹی قیادت پر قبضے کیلئے نند اور بھابھی کے مابین جاری جنگ میں بشری بی بی نے بظاہر علیمہ خان کو سائیڈ کر دیا ہے اور پی ٹی آئی کے زیادہ تر قائدین ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے بعض رہنما یہ دعوی کر رہے ہیں کہ بشری عرف پنکی پیرنی کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن واقفان حال اس دعوے کو رد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بشری نے ناصرف پارٹی کی کمان سنبھال لی ہے بلکہ بلا شرکت غیرے حکمرانی کے لیے عمران خان کی بہنوں کو مکمل طور پر پارٹی معاملات سے الگ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے بشری بی بی کی اسیری کے دوران علیمہ خان نے ناصرف پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا بلکہ وہ احکامات بھی جاری کرتی تھیں۔
اس دوران ایک روز علیمہ خان وزیر اعلی گنڈا پور کو بتائے بغیر پشاور پہنچ گئی تھیں، جہاں انہوں نے جیل کاٹنے والے اور ناراض پارٹی کارکنوں سے ملاقاتیں کیں۔ پارٹی ورکرز نے اس ملاقات میں گنڈاپور اور انکی حکومت کیخلاف شکایات کے انبار لگا دیئے۔ ذرائع کے بقول گنڈا پور علیمہ خان کی جانب سے پارٹی معاملات میں مداخلت سے پریشان تھے اور انہوں نے عمران خان سے انکی ہمشیرہ کی شکایت بھی کی تھی۔ تاہم اب ان کی یہ مشکل بشری بی بی نے دور کر دی ہے، جنہیں جیل سے رہائی دلانے میں انہوں نے ہی بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ شاید آگے چل کر انہیں اپنے اس فیصلے پر پچھتانا پڑے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پارٹی پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ بشریٰ اس وقت ایک طرح سے ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بھی بنتی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ مہارانی کی طرح وزیر اعلیٰ ہاؤس کی ایک آرام دہ انیکسی میں رہائش پذیر ہیں جہاں انہیں دنیا کی ہر نعمت میسر ہے۔ اس انیکسی میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔ بشری بی بی نے صرف اپنے خاندان کی چند خواتین کو ساتھ رکھا ہوا ہے اور ان کی قریبی رشتے دار خواتین کا وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 24 نومبر کے احتجاج کی منصوبہ بندی بارے خیبر پختون خواہ ہاؤس اسلام آباد میں بشری بی بی نے جس اجلاس سے خطاب کیا، اس کے لئے کے پی اور پنجاب سے منتخب اراکین اور قائدین کو تو بلا یا گیا لیکن علیمہ خان سمیت عمران خان کی کسی بہن کو مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ یہ بشری بی بی کی ہدایت تھی۔ گنڈا پور نے علیمہ خان کو تو کبھی پروٹوکول نہیں دیا لیکن بشری بی بی کے لیے انہوں نے آنکھیں بچھا رکھی ہیں اور ان کے تابعدار بنے ہوئے ہیں۔
کیاپی ٹی آئی24 نومبر کو 9 مئی کا ایکشن ری پلے کرنے جا رہی ہے؟
پندرہ نومبر کو پشاور میں ہونے والے اجلاس میں پارٹی رہنماؤں اور عہدے داروں سے پردے کے پیچھے خطاب کرتے ہوئے بشری نے کہا تھا کہ 24 نومبر کو احتجاج کے لئے ہر حلقے سے ایم این اے دس ہزار اور ہر ایم پی اے پانچ ہزار افراد ساتھ لائے۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دی کہ جو ایم این اے یا ایم پی اے اپنے ساتھ بندے نہیں لائے گا، اسے پارٹی سے باہر کیا جائے گا اور جو پارٹی رہنما، ایم این اے یا ایم پی اے احتجاج سے پہلے گرفتار ہوا وہ بھی پارٹی سے نکال دیا جائے گا۔
دس منٹ کے خطاب میں بشری نے پارٹی رہنماؤں، ارکان پارلیمنٹ اور عہدے داروں سے یہ شکوا بھی کیا کہ اب تک انہوں نے عمران خان کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ اجلاس میں شریک ایک ایم پی اے نے بشری کی گفتگو دہراتے ہوئے بتایا کہ ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں نے کیا مذاق بنایا ہوا ہے۔ جس شخص کی وجہ سے آپ مزے اڑا رہے ہیں وہ کب سے جیل میں بند ہے اور آپ باہر عیاشی کر رہے ہیں، بجائے کہ اس کی رہائی کے لیے کچھ کریں؟