10 روپے کلو پھل کا خواب کراچی میں حقیقت کا روپ دھار گیا
دوپہر دو بجے سے ہی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے اور سب کی نظریں آسمانی رنگ کے تنبو پر تھیں جس کے باہر بڑے بڑے الفاظ میں ’پھل صرف 10 روپے کلو‘ تحریر تھا۔
یہ ماہ رمضان کا دوسرا روز تھا۔ پہلے روز ہی سوشل میڈیا پر رعایتی نرخ پر پھلوں کی فروخت کی اتنی تشہیر ہوئی کہ لوگوں کا جمع غفیر اُمڈ آیا، ہر کوئی سوال کر رہا تھا کہ کتنے بجے پھل بیچنا شروع کریں گے۔
کراچی کے نوجوان مصطفی حنیف نے دو سال قبل پھلوں کی رعایتی قیمتوں پر فروخت کا سلسلہ شروع کیا تھا جو رواں سال تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہے۔ مصطفی حنیف خیراتی کام کے ساتھ ساتھ یوٹیوب پر بھی کافی ایکٹیو ہیں۔
کیلے، خربوزے اور سیبوں سے لدی ہوئی ایک سوزوکی پک اپ آ کر اس تنبو کے باہر رُکی، رضاکاروں نے اس میں سے پھل کی پیٹیاں اُتار کر تنبو میں رکھیں جنھیں دیکھ کر لوگوں کو اطمینان ہوا کہ پھل آ گیا ہے۔
مصطفیٰ حنیف کے مطابق تین سال قبل انھوں نے سوچا کہ رمضان میں ایسی کون سی چیز ہے جو سب سے زیادہ فراہم کی جائے تاکہ لوگوں کو آسانی ہو۔ تو اس میں فروٹ کا خیال آیا جس کے بعد انھوں نے دس روپے کلو کے حساب سے تقسیم شروع کی اور سوچا ’مفت میں نہ دیا جائے تاکہ لوگوں کی خودداری بھی متاثر نہ ہو اور وہ اپنے بھرم سے فروٹ لے کر جائیں اور گھر میں فروٹ کھائیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ذاتی زندگی میں تو ایسا کوئی واقعہ نہیں لیکن عام زندگی میں جب فروٹ کی ریڑھی سے گزرتے ہیں تو ایک بار سوچنا پڑتا ہے کہ اس کے نرخ اتنے زیادہ ہیں اگر ہم یہ سوچتے ہیں تو یہ سوچ سب کی ہے۔
مصطفیٰ حنیف بتاتے ہیں کہ ان کے سٹال سے یکم رمضان کو 400 سے زیادہ افراد اپنے خاندانوں کے لیے پھل لے کر گئے، اگلے روز انھوں نے زیادہ آرڈر کیا اور چھ، سات سو لوگ اس سے مستفید ہوئے، فروٹ کی تقسیم سے قبل لوگوں کو قطار میں ٹوکن تقیسم کیے جاتے ہیں اور وہ یہ ٹوکن سٹال پر دے کر فروٹ لیتے ہیں۔
مصطفیٰ حنیف کے مطابق جو پہلے آئے گا اور قطار میں موجود ہوگا اسے پھل ملیں گے، جتنے بیگس بنتے ہیں اتنے لوگوں کو ٹوکن فراہم کرتے ہیں۔ ’ایک تھیلی میں تین کیلے، ایک سیب اور ایک خربوزہ شامل ہوتا ہے۔ دو کلو کے قریب وزن کے اس فروٹ سے پانچ سے چھ افراد باآسانی فروٹ چاٹ یا فروٹ کھا کر روزہ افطار کر سکتے ہیں۔‘
پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے مزار سے نصف کلومیٹر دور جیل روڈ پر بائی پاس کے نیچے فٹ پاتھ پر یہ سٹال لگایا گیا ہے یہاں قطار میں کھڑے لوگوں میں مزدور، نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے ملازمین سمیت پردہ پوش خواتین بھی شامل تھیں۔
زینب بی بی (فرضی نام) ہاتھ میں فروٹ کی تھیلی لیے کھڑی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ دوپہر بارہ بجے سے یہاں کھڑی تھیں اور فروٹ لینے میں کامیاب ہوگئیں حالانکہ ’دھکم پیل میں وہ گِر بھی گئی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر وفات پا چکے ہیں۔ ’نو سال تک پولیو ویکسینیٹر کے طور پر کام کیا۔ اب بیمار ہوں سولہ اور سترہ سال کی دو بچیاں ہیں۔ انہوں نے کہا روزہ ہے، فروٹ کھانا ہے۔ میں یہاں آگئی اور یہ فروٹ لیا۔ اب کل بھی آؤں گی۔‘
مزدور محمد الیاس نے کہا اگر یہ فروٹ عام بازار سے لیں تو تین سو روپے سے زیادہ لگ سکتے ہیں مگر یہاں اس کی خریداری کے لیے انھوں نے 20 روپے ادا کیے ہیں۔اسی طرح عمر خان نے بتایا کہ ’مہنگائی ہے، ہر کوئی فروٹ افورڈ نہیں کرسکتا۔ اس لیے ہم یہاں آئے ہیں۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ دور سے آئے ہیں، ان کا پیٹرول لگ رہا ہے۔ انھیں فائدہ نہیں ہے، فائدہ صرف آس پاس کے لوگوں کو ہے۔مصطفیٰ حنیف کا اپنے ہی نام سے ٹرسٹ موجود ہے۔ عطیات جمع کر کے وہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’رواں رمضان میں جو پھل یومیہ ایک لاکھ 76 ہزار روپے کی مالیت کے لائے ہیں گذشتہ سال اسی مقدار کے پھل 90 سے 95 ہزار میں خرید لیتے تھے۔ تقریباً ڈبل کا فرق آگیا ہے اور جیسے جیسے دن بڑھیں گے، قیمتیں بڑھتی جائیں گی۔رضاکاروں کی مدد سے تین گھنٹوں میں پیک کیے گئے یہ پھل صرف ایک گھنٹے میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور کئی لوگوں کو خالی ہاتھ جانا پڑتا ہے۔