کیا PTI کے جھوٹے الزامات اور مذاکرات ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں؟

تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکرات اور مفاہمت کی خبریں زوروں پر ہیں جبکہ دوسری جانب دونوں اطراف سے اس حوالے سے متضاد دعوے بھی سامنے آ رہے ہیں کچھ یوتھیے رہنماؤں کے مطابق عمران خان نے تاحال حکومت سے مذاکرات کی اجازت نہیں دی جبکہ کچھ پی ٹی آئی رہنما مذاکرات کیلئے خفیہ ملاقاتیں کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب دونوں اطراف سے الزام تراشیوں اور بیان بازیوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

 تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکرات کی خبروں بارے تجزیہ پیش کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار شاہزیب خانزادہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت اور پی ٹی آئی میں مفاہمت کے دعوے کئے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ڈی چوک پر تحریک انصاف کے احتجاج کے بعد حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ایک دوسرے پر قتل کے سنگین الزامات لگا رہے ہیں۔جہاں پی ٹی آئی قیادت  نے اپنے لاپتہ کارکنوں کی فہرست عدالت میں جمع کراکر  وزیراعظم شہباز شریف سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور نامعلوم افرا دکے خلاف کارروائی کی ابتدا کردی ہے۔وہیں دوسری جانب 24نومبر کے احتجاج میں تین رینجرز اہلکاروں کو گاڑی کے نیچے کچلنے کے واقعے پر عمران خان کے خلاف ایف آئی آر بھی سامنے آگئی ہے۔جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی ساری منصوبہ بندی اڈیالہ جیل میں کی گئی۔

شاہزیب خانزادہ کے مطابق پی ٹی آئی رہنما حکومتی ذمہ داران سے مذاکرات کیلئے ملاقاتیں کر رہے ہیں جبکہ اسی دوران شیر افضل مروت نے دعویٰ کردیا ہے کہ عمران خان نے توابھی مذاکرات کا کہا ہی نہیں ہے۔ ابھی تو صرف مذاکراتی کمیٹی بنائی ہے۔اس وقت پی ٹی آئی کے کارکنوں کے گھروں میں ماتم ہے ایسی صورتحال میں مذاکرات کا شوشہ چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ حامل ہے۔

تاہم بعض دیگر مبصرین کے مطابق خبریں آرہی ہیں کہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کیلئے رابطے شروع ہوگئے ہیں اور اس باب میں پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہےجبکہ ملاقاتوں سمیت رابطے کی دوسری صورتیں بھی اختیار کی جارہی ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت اور تحریک انصاف کے مابین معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ دونوں فریقوں کے قریب آنے میں وقت لگے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعد المشرقین کی موجودہ کیفیت میں بات ایک دم آگے بڑھنے کی امید معجزے کی توقع کے مترادف ہے مگر ملکی حالات متقاضی ہیں کہ بحرانوں پر قابو پانے اور آگے بڑھنے کیلئے غیریقینی کیفیت کو ختم کیا جائے۔ اس کیلئے مذاکرات نہ صرف ضروری ہیں بلکہ فریقین میں اس کی خواہش بھی پائی جاتی ہے۔

مبصرین کے مطابق یہ امر خوش آئند ہے کہ فریقین مذاکرات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کیونکہ دونوں اطراف کو یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ مسائل بہرطور مذاکرات سے طے ہونگے مگر ان میں وقت لگے گا کیونکہ موقف کا تضاد جتنا شدید ہوتا ہے، فریقین کے قریب آنے میں اتنا ہی وقت لگتا ہے۔ مبصرین کے مطابق موجودہ صورتحال کی وجوہ میں سے ایک یہ ہے کہ 9مئی 2023ء کے واقعات کے حوالے سے پی ٹی آئی خود کو بے قصور سمجھتی ہے جبکہ حکومت اور مقتدرہ کی نظر میں پی ٹی آئی قیادت ہی واقعہ کی ذمہ دار ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ 8فروری کے عام انتخابات کے نتیجے میں ایک پارٹی حکومت میں ہے۔ جبکہ دوسری جماعت 8فروری کے نتائج کو مانتی ہی نہیں، فارم 45اور فارم 47کے حوالے دیتی اور مینڈیٹ چوری ہونے کا گلہ کرتی ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ایک پارٹی موجودہ پارلیمنٹ کی وجہ سے حکومت میں بیٹھی ہے جبکہ دوسری پارٹی اس پارلیمنٹ ہی کو جعلی قرار دیتی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ واقعات کے حوالے سے ایک پارٹی دوسری پارٹی کو شرپسند، جتھہ بند کہتی ہے جبکہ دوسری پارٹی کا کہنا ہے کہ آپ نے ہمارے نہتے افراد پر گولی چلائی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں سائیڈوں میں موجود تضادات جلد دور نہیں ہوسکتے۔ ان کیلئے مذاکرات میں فریقین کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ وطن عزیز کو موجودہ صدی کے آغاز کے وقت سے ہی دہشت گردی سمیت کئی دیگر چیلنجوں کا سامنا ہے، یہ ضرورت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ سیاسی پارٹیوں سمیت ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے زعما مل بیٹھ کر ملک کے وسیع تر مفادات کیلئے سوچیں اور ایسے میثاق پر اتفاق رائے پیدا کریں جس سے ملک کے سیاسی نظام سمیت تمام شعبوں کی اصلاح و ترقی کی راہ ہموار ہو۔ تاہم یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات جلد نتیجہ آور ثابت نہیں ہونگے لیکن بات چیت ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے ملک کو بحران سے نکال کر استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے گا۔

Back to top button