چھکا لگاتے ہوئے باؤنڈری پر کیچ آؤٹ ہونے والا کپتان
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عمران خان کی حالت اس کپتان کی ہے جو میچ کی آخری بال پر چھکا لگا کر جیتنے کی کوشش میں باؤنڈری پر کیچ آؤٹ ہو جائے اور پھر اصرار کرے کہ فیلڈر نے کیچ پکڑتے ہوئے باؤنڈری پر پاؤں رکھ دیا تھا۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایمپائیر کے بعد اب تھرڈ امپائر نے بھی انہیں آؤٹ قرار دے دیا ہے۔
دوسری جانب عمران خان کے ہمدرد اور ووٹرز اب بھی ان کے غیر آئینی اقدام کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی اپنے کپتان کی طرح سیاست کو کھیل ہی سمجھتے ہیں اور اور آئین شکنی کو سنجیدگی سے لینے پر آمادہ نہیں۔ عمران خان کا ایک بہت وسیع فین کلب ہے جو 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے سے 2022 میں جیب سے نکالا ہوا خط لہرانے تک، اُن کے سحر میں مبتلا ہے، اُن کی آواز پہ لبیک کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کپتان جو بھی کہہ رہا ہے وہی سچ ہے۔
عمران خان کرکٹ ہی کی اصطلاح میں انھیں بتاتے ہیں کہ وہ ڈٹ کے کھڑے ہیں اور آخری گیند تک کھیلیں گے۔ لیکن چونکہ آخری گیند پر 172 رنز نہیں بن سکتے تھے اس لیے کپتان نے اپنے ہی بلے سے اپنی ہی وکٹ گرا لی تھی۔ ایسا کرنے کے بعد موصوف نے اپنی ٹیم کے تھکے ہوئے کھلاڑیوں اور مداحوں کو ایک مرتبہ پھر ماموں بناتے ہوئے بتایا کہ میچ ابھی ختم نہیں ہوا اس لیے انھیں ’ابھی گھبرانا نہیں ہے۔‘
کپتان کے اس اشارے نے میچ میں ایک مرتبہ پھر دلچسپی پیدا کر دی تھی اور کرسیاں چھوڑ کے جاتے ہوئے تماشائی واپس اپنی کرسیوں پر آ بیٹھے تھے۔ لیکن اب کپتان کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی کہانی بھی پویلین سے پچ تک کی کہانی جیسی ہے، اس دوران انھوں نے پہلے اپنے سیاسی مخالفین کے چھکے چھڑائے لیکن بعد میں ان کی اپنے چھکے چھوٹ گے۔ عمران خان کا مرکزی دھارے کی سیاست میں آنا کوئی اچانک حادثہ نہیں تھا اور بقول اُن کے اس کے لیے انھوں نے کئی سال انتظار کیا اور محنت کی۔
سنہ 1987 کے ورلڈ کپ کے بعد جب عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا تو جنرل ضیا الحق نے انھیں دوبارہ کرکٹ میں واپس آنے کا کہا اور چند ماہ بعد عمران نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ یہاں ان کی فوجی جرنیلوں کے ساتھ پیار کی پینگیں پڑنا شروع ہوئیں جن کے نتیجے میں ایک دن جنرل باجوہ نے انہیں وزیر اعظم بنوا دیا۔ تاہم جلد ہی اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایک کرٹر کو وزیر اعظم بنانے کا خمیازہ بھگتنا پڑ گیا۔
عمران خان ملٹری انٹیلیجنس آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کو ان کے جہادی نظریات کی وجہ سے پسند کرتے تھے اور جب انھیں موقع ملا تو انھوں نے جنرل حمید گل اور محمد علی درانی کی بظاہر سوشل نظریات پر بنائی گئی تنظیم ‘پاسبان’ میں شمولیت اختیار کر لی۔ حمید گل اور درانی اسے ایک پریشر گروپ یا ‘تھرڈ فورس’ کہتے تھے جس کی، بقول اُن کے، پاکستان کو اشد ضرورت تھی کیونکہ سیاست دان اپنے فوائد کی خاطر ملک کو لوٹ کے کھا رہے تھے اور عوام ان کی آپس کی لڑائیوں میں پس چکے تھے۔
پاسبان کے بانی اسے سیاست کے بجائے معاشرتی تبدیلی کی طرف پہلا قدم کہتے تھے جو کئی سال بعد عمران کی تبدیلی کی سونامی کی لہر میں منظرِ عام پر آئی۔ یہ ایک بہت کارگر ‘ٹرائیو’ تھا۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کے منصوبہ ساز نظریات، جماعت اسلامی سے آئے ہوئے درانی کی منظم کرنے والی بہترین صلاحیت اور ورلڈ کپ کے ہیرو عمران خان کی کرشماتی شخصیت۔ عمران کے سیاسی نظریات کی پختگی میں اس تنظیم اور اس کے ان دو رہنماؤں کا بظاہر بہت عمل دخل ہے۔
کئی سال بعد ایک اور جنرل مشرف بھی عمران کے قریب ہوئے اور عمران اُن کے ساتھ ملتے ملتے رہ گئے۔ بقول جنرل مشرف پی ٹی آئی کے رہنما ان سے پارٹی کی حیثیت سے کہیں زیادہ سیٹیں مانگ رہے تھے۔
29 دسمبر 1994 کو شوکت خانم میموریل کینسر ریسرچ ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر کا افتتاح ہوا اور دو سال بعد 25 اپریل 1996 کو عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی جس کا منشور بھی ‘پاسبان’ کی بنیادوں پر ہی رکھا گیا تھا جن میں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام، احتساب کا نعرہ اور ایک انصاف پسند معاشرے کی تشکیل اولین ترجیحات میں شامل تھیں۔
اگرچہ شروع میں اسے صرف ‘ون مین شو’ کہا جاتا تھا لیکن بعد میں اس قافلے کے ساتھ اور لوگ جڑتے گئے۔ گو کہ پارٹی 1996 میں بنی تھی لیکن اس کا پہلا بڑا شو 2011 میں نظر آیا جب اس نے 30 نومبر کو لاہو ر کے مینارِ پاکستان میں اپنا پہلا بڑا جلسہ کیا۔
اس وقت تک نظریاتی لوگوں کے علاوہ کچھ الیکٹیبلز بھی اس میں شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ سنہ 2002 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو صرف ایک سیٹ ملی اور وہ بھی عمران خان کی تھی جو انھوں نے میانوالی سے جیتی تھی۔ پھر 2013 کا الیکشن آیا۔ اس وقت پی ٹی آئی نے اپنے آپ کو گراس روٹ کی سطح تک منظم کرنا شروع کیا، کہ اس کے امیدوار کون کون ہوں گے، کون پیسہ خرچ کرے گا، کون کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا۔’
آج کل تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ، منحرف ارکین، اور اتحادیوں کی ناراضی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کبھی منحرفین کو ‘غدار’ کہا جاتا ہے اور کبھی ان پر کرپشن کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ پی ٹی آئی میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے؟ بالکل نہیں۔ پارٹی جب بنی تھی اور انتخابات میں حصہ لیا تھا تب ہی سے پارٹی میں مختلف گروہ ایک دوسرے سے ناراض رہے اور کئی ایک نے پارٹی چھوڑ بھی دی تھی۔
عمران خان نے جب 1996 میں اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف بنائی تھی تو اس وقت انھیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ گیارہ کھلاڑیوں کی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنے اور ملکی سطح پر ایک سیاسی جماعت چلانے میں کیا فرق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی شخصیت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جو بھی ان کے بہت قریب آتا ہے وہ کچھ عرصہ بعد ان سے دور ہو جاتا ہے۔ حامد خان سے لے کر ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین تک اور جہانگیر خان سے لے کر علیم خان جیسے ناموں تک پی ٹی آئی میں ناراض اراکین کی فہرست بہت لمبی ہے۔
2018 میں فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آنے والے عمران خان کو جنرل باجوہ بطور کرکٹر ذاتی طور پر پسند کرتے تھے اور اسی لئے انہوں نے عمران کو بطور وزیر اعظم چنا تھا۔ عمران خان کا وعدہ پرانی سیاست کو رد کر کے نئی سیاست لانے کا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ انصاف سے شروع ہوئے تھے لیکن انصاف کا جنازہ نکال دیا۔ چونکہ وہ کوئی حقیقت تبدیلی نہیں لا سکے چناچہ انہوں نے ریاست مدینہ کا چورن بیچنا شروع کردیا۔
عمران خان کی شخصیت کی طرح ان کی خارجہ پالیسی بھی شدید کنفیوژن کا شکار رہی۔ موصوف جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اننسے ملاقات کے بعد واپس لوٹے تو بڑے ناز سے کہا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔
سپریم کورٹ کو دھمکی آمیز خط کی اصلیت بتا دی گئی تھی
صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے بہت انتظار کیا کہ وہ ان سے رابطہ کریں اور کچھ انٹرویوز میں تو انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ انھیں معلوم نہیں کہ فون کیوں نہیں آیا لیکن ساتھ ہی حال ہی میں انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ امریکہ ان کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔
اسی سازش چورن کی بنیاد پر انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے اپوزیشن کی دائر کردہ تحریک عدم اعتماد بھی مسترد کروا دی، لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دے کر ان کی ساکھ کے بحران میں مزید اضافہ کردیا ہے۔