عدم اعتماد کے دوران کپتان کوئی مس ایڈونچر تو نہیں کرنے والے؟
تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے خلاف پارٹی کے اندر سے ہی ہونے والی بغاوت کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک آنے سے پہلے ہی انہیں بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پڑ جائے۔
جہانگیر ترین گروپ میں سابق سینیئر صوبائی وزیر عبد العلیم خان کی درجنوں ساتھیوں سمیت شمولیت کے بعد تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پنجاب ہو یا وفاق، کپتان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے ہی انہیں اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بھی بلوچستان والا فارمولا لگ سکتا یے، یعنی تحریک انصاف کے اندر سے ہی چہرے کی تبدیلی کے امکانات ہیں جبکہ مرکز میں گیم پہلے ہی کپتان اینڈ کمپنی کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔
مبصرین کے خیال میں پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر سیاسی دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوا ہے اور شاید پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آئے، مگر سوال یہ ہے کہ میلسی میں ’خطرناک‘ ہو کر بولنے والے وزیراعظم فرسٹریشن میں کوئی مس ایڈونچر تو نہیں کر دیں گے؟ ان خدشات کی بنیادی وجہ عمران کے قریبی حلقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر انہیں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی نظر آئی تو وہ اکیلے نہیں ڈوبیں گے بلکہ اسکے پیچھے موجود صنم کو بھی ساتھ لے کر ڈوبیں گے۔
یاد رہے کہ یہ وہی صنم ہے جو ایک زمانے میں کپتان کا بڑا فین تھا اور اسے اپنے کندھوں پر سوار کر کے برسر اقتدار لایا تھا۔ دوسری جانب پشاور میں ایک اہم عسکری عہدے پر تعینات کپتان کا محبوب بھی تازہ سیاسی ڈویلپمنٹس کے بعد مضطرب دکھائی دیتا ہے چونکہ اگر کپتان ڈوبا تو وہ بھی ڈوب جائے گا۔ اس لیے موصوف منع کرنے کے باوجود کپتان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور گجرات کے چوہدریوں سمیت دیگر اتحادیوں کو حکومت کے ساتھ کھڑا رہنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔
تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں سینیئر اینکر پرسن عاصمہ شیرازی س2ال۔کرتی ہیں کہ کیا وہ لمحہ آ رہا ہے جہاں سیاست دان ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو این آر او دے رہے ہیں؟ کیا ایک بار پھر تبدیلی اشاروں پر ہے؟ کیا گھوم پھر کر سیاست پھر وہیں اُسی دائرے میں داخل ہو گئی ہے جہاں 70 سال سے بار بار آتی ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے گرد کم از کم گذشتہ چار ماہ سے بحث و تمحیص کا سلسلہ چل رہا ہے۔
بقول عاصمہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ سیاسی قوتیں ایک قدم آگے بڑھی ہیں یا طاقتور حلقے دو قدم پیچھے ہٹے ہیں؟ وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ چار سال میں تبدیلی کے لیے جس طرح ہواؤں کے رُخ موڑنے کی کوشش کی گئی، تاثر کے اس دور میں میڈیا کے ہتھیار کو یکطرفہ محاذ پر استعمال کیا گیا، ایک صفحے کی طاقت کا بھرپور اظہار اور ہائبرڈ دور کے مخصوص زاویے سے بیانیے کی جنگ کو آزمایا گیا، خارجہ تعلقات، معاشی پالیسیوں اور اندرونی محاذ پر ہم خیال لائحہ عمل نے ملک کو جس کیفیت سے دوچار کیا اُس کا شاخسانہ اب عیاں ہے۔ بہر حال ساڑھے تین سال بعد پھر تبدیلی کے ناگزیر ہونے کا خیال، سیاسی قوتوں کی جمع تفریق کے مطابق وقت سے کہیں پہلے تھا۔ پالنے میں بچے کے مستقبل کا حال بتا دینے والے سیاسی جوتشی سمجھ رہے تھے کہ غیر فطری نظام فطری طور پر گِر سکتا ہے۔
بقول عاصمہ شیرازی یہ باگ ڈور مزید دلچسپ ہو گئی جب پی ڈی ایم تشکیل پائی اور پھر ٹوٹ گئی۔ بنتے بگڑتے اتحادوں اور نظریاتی کشمکش رکھنے والی جماعتوں کو اس دوران صرف اس نقطے کی سمجھ آئی کہ ’اب نہیں تو کبھی نہیں۔ اپوزیشن جماعتیں جو کبھی کندھوں اور سہاروں کی تلاش میں تھیں پہلی بار کندھوں اور سہاروں کو ہٹ جانے کا مشورہ دینے لگیں، بات کندھے کی جانب اشاروں سے نکل کر خلائی مخلوق اور پھر واضح اسٹیبلشمنٹ کے لیے کُھلے لفظوں ہونے لگی۔ ناکامی، ناکامی کی صداؤں میں تبدیلی لانے والوں کو اپنی فکر ہوئی کہ عوامی غیض و غضب کا نشانہ کہیں وہ نہ بن جائیں، سو پہلے ’دوری‘ اور پھر ’انگیجمنٹ‘ کا فارمولا اپنایا گیا۔
وقت کے پہیے نے اُلٹا چلنا شروع کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے راستے ہموار کیے، عدلیہ نے آنکھیں بچھائیں، میڈیا نے ’مثبت‘ رویہ دکھایا مگر بدقسمتی کہیے یا خوش قسمتی کہ کوئی طریقہ کارگر نہ ہوا۔ بالآخر بات اداروں تک آ پہنچی اور گھر کو گھر کے ہی چراغ کی آگ سے بچانے کے لیے دروازے دیگر سٹیک ہولڈرز کے لیے کھولے جانے لگے۔
عاصمہ کہتی ہیں کہ پہلی بار طاقتور قوتیں مستقبل میں ادارے کے بہترین مفاد میں ایک قدم پیچھے ہٹتی دکھائی دیں۔ انکے بقول، سیاسی طاقتوں کی یہ کامیابی ضرور ہے کہ الگ الگ پلیٹ فارم پر ہونے کے باوجود یکسوئی سے اداروں کے غیر سیاسی کردار پر مسلسل زور دیتی رہیں۔ عاصمہ شیرازی سمجھتی ہیں کہ اپوزیشن کی حکومت برطرف کرنے کی کوشش کامیاب ہو یا نہ ہو مگر حزب اختلاف عوام اور خواص کو ’غلطی‘ کی نشاندہی کرانے میں قدرے کامیاب رہی ہے۔
اپوزیشن کی ہرچال کے مقابلے کیلئے تیار ہوں
اب بھی عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں اپوزیشن کو ایک معاشی اور سیاسی ایجنڈے پر یکجا ہونا ہو گا۔ ماضی کی غلطیوں سے سیاسی جماعتوں نے کیا سیکھا ہے اس کے امتحان کا مرحلہ کپتان کے بعد کے ماحول میں ہی دیکھنے کو ملے گا۔ آصف زرداری نے حکومت اپنے ہی بوجھ پر گرنے کی پیشن گوئی اُنہی دنوں کر دی تھی جب وہ احتساب عدالتوں کے چکر لگا رہے تھے۔ حالات یہ ہیں کہ حکومتی بینچوں پر باقی رہ جانے والے بھی نئی راہوں کی تلاش میں ہیں۔ ندیم افضل چن کی پیپلز پارٹی میں واپسی بھی نظریاتی سیاست کی بہرحال جیت ہے۔ اُدھر طاقتور حلقوں کی ’میانہ روی‘ کا پیغام عام ہوا اِدھر پرندوں نے اپنے گھروں کی راہ لی۔ دباؤ اور خوف سے نجات پانے والے اب ساڑھے تین سال کا حساب چُکانا چاہتے ہیں اور نئے انتخابات کی جوڑ توڑ کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔