سیاست کا نوری نت کپتان

تحریر:عاصمہ شیرازی، بشکریہ: بی بی سی اردو

جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور جو آئندہ ہو گا اُسے روکا جانا ضروری ہے۔ چلیں کچھ تو ہوا کہ خود بنانے اور خود ہی مٹانے کی خواہش دم توڑ گئی مگر کب تک؟دس سال کا مبینہ ’عمرانی معاہدہ‘ محض تین سال آٹھ ماہ میں ہی اختتام پذیر ہو گیا۔ شہباز شریف 23ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ شخصی آمریت ہار گئی، جمہوریت جیت گئی، آئین سربُلند ہوا مگر جس طرح ہوا وہ بھی کسی فلم سے کم نہیں۔فلم کی کہانی ’سازشی خط‘ کے گرد اور خط ’ڈاکخانے‘ کے گرد گھومتا رہا۔ خط میں سب کچھ تھا، نہیں تھا تو وہ ’سلام‘ نہ تھا۔۔۔ اور بس جھگڑا اُس ’سلام‘ کا تھا جسے انتخاب کا انتساب بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

کپتان کی سیاست بھی مولا جٹ سے کم نہ تھی بلکہ فلم کے سنسنی خیزی، ڈرامہ، سسپنس اور ایکشن سے بھرپور مراحل نے وہ کھڑکی توڑ بزنس کیا کہ مثال نہیں ملتی۔فلم کے کردار دلچسپ، رنگین اور جاندار تھے۔ ہر لمحہ ایکشن، مولا جٹ، نوری نت اور ہیروئن مکھو کا کردار نبھاتی اسٹیبلشمنٹ۔۔۔ جس کی کھینچا تانی نے کہانی کو ہر اعتبار سے چار چاند لگا دیئے۔کامیڈی کے لیے کردار بھی موجود، مگر سب سے اہم آئین اور قانون کا مذاق اُڑاتا نوری نت جس کی کلہاڑی نے سارے نظام، قانون، عدالت اور یہاں تک کہ مملکت کو مصیبت اور امتحان میں ڈال دیا۔کپتان اب اقتدار سے باہر ہے، یعنی مزید خطرناک ہے۔

جب تک اقتدار میں رہے تو مملکت پریشان، عوام بے حال، ریاست حیران اور اب سڑکوں پر آئیں گے تو بھی بحران ہی بحران۔بہرحال یہ ناکام فلم اب ڈبے میں بند کیسے ہو گی یا یوں کہیے کہ سنہ 2011 میں بوتل سے چھو منتر سے نکالا گیا جن اب چھو منتر سے واپس بوتل میں کیسے جائے گا یہ مالک بھی نہیں جانتا۔

سوال یہ ہے کہ ’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مردا‘، اب مولا کیسے مارے؟ سب کو مارنے والا مولا اب جن حالات کا شکار ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہیں۔عمران خان کے لیے گذشتہ انتخابات سے قبل اور بعد میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو رونق لگائی گئی وہ اب اپنے خالقوں کے خلاف ہی استعمال ہو رہی ہے۔انصافی میڈیا کے تیار کردہ بوٹس اور روبوٹس پروگرام کے بغیر تباہی مچا رہے ہیں یا یوں کہیے کہ چھوٹے موٹے زکوٹے اپنے آپ یہاں وہاں منھ سے آگ نکالنے کے کرتب کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سوشل میڈیا اور میڈیا کے چھوٹے موٹے ’مِنی جنی‘ (mini Ginny) ہم جیسوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہی تیار کیے گئے تھے، تب ہم جب ان کے بے قابو ہونے کی بات کرتے تو ایک صفحے کی حکومت کے عتاب کا شکار ہوتے کیونکہ نئے پاکستان میں ترجیحات میڈیا کی زبانیں بند اور قلم قابو کرنا تھیں۔

نفرت کی جو آگ گذشتہ 22 برسوں میں عمران خان نے اپنی جماعت کے کارکنوں اور خصوصاً جوانوں میں لگائی وہ اب دہک رہی ہے، جو فصل تیار کی گئی وہ کاشت ہونے کو تیار کھڑی ہے، اب اُس فصل سے نہ آرمی چیف محفوظ اور نہ ہی چیف جسٹس۔ادارے بے بس جبکہ عمرانی بیانیہ اب اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کو ہوا دے رہا ہے۔پی ٹی ایم، ن لیگ، پیپلز پارٹی، بلوچ تنظیمیں یا ایم کیو ایم کے کارکن یہ آگ لگا رہے ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔ ’کتنی ویگو لاؤ گے‘ کا نعرہ لگانے والے کھلم کھلا ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں۔

یہ لاڈ صرف اُن سے ہی ہو سکتا ہے جن کو خود پیدا کیا گیا ہو، اب بچے گود میں بیٹھ کر داڑھی نوچ رہے ہیں تو ریاست بے بس محسوس کر رہی ہے۔سوشل میڈیا کا جو ہتھیار خود ہاتھ میں تھمایا گیا اُسے کیسے واپس لینا ہے یہ بھی ایک امتحان ہے۔ ہم یہ کہتے اور لکھتے رہے کہ ’چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں‘ مگر اختیار سے آگے کیا نظر آتا ہے؟ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا، بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کی سڑک پر قتل کر دیا گیا، نواز شریف سے بندوق کی نوک پر استعفیٰ لکھوایا گیا، جیلیں اور جلاوطنیاں ہوئیں مگر کسی نے کبھی نہ پاکستان کا پرچم جلایا اور نہ ہی پاسپورٹس کو آگ لگائی۔

اور اب آئین انصاف کے کٹہرے میں

عمران خان تاریخ کے وہ پہلے وزیراعظم ہیں جنھیں ایوان کی طاقت نے آئینی طریقے سے نکالا اور وہ آئین شکنی کے مرتکب بھی ہوئے۔ عمران خان ایک سیاسی حقیقت ہیں لیکن ان کے جابرانہ رویے نے اُنھیں تاریخ کا پہلا فاشسٹ حکمران ہونے کا الزام بھی دیا۔جو ہوا سو ہوا، اب آگے کیا؟ عمران خان کیا اب بھی اپنے ووٹرز کو سمجھائیں گے یا انا کی بھینٹ چڑھائیں گے؟ کیا اس ناکام تجربے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کچھ سیکھے گی اور خود کو سیاست میں مداخلت سے روکے گی؟کیا بڑی سیاسی جماعتیں ماضی سے سیکھتے ہوئے جمہوریت کے محض نعرے نہیں بلکہ عملاً جمہوریت اپنائیں گی؟ یہ سوالات اہم ہیں، جواب نہ ڈھونڈے گئے تو سیاست کا ایک اور نوری نت پیدا ہو سکتا ہے جو آئین پر ہی جب چاہے کلہاڑا چلاتا رہے۔

Back to top button