چیف جسٹس بندیال جسٹس نقوی بارے کارروائی سے گریزاں

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی جسٹس سردار طارق مسعود کی طرف سے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس پر غور کرنے کے لیے کونسل کا اجلاس بلانے بارے خط لکھے جانے کے بعد اب خیبر پختونخواہ بار کونسل نے بھی جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کروا دیا ہے۔تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال ریفرنسز بارے کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔
دوسری طرف خیبرپختونخوا بار کونسل نے اعلان کیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کردیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی شروع کردی جائے۔بار کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا بار کونسل کے وائس چیئرمین زربادشاہ خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین مبشر شاہ نے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا ہے۔اس حوالے سے بتایا گیا کہ حال ہی میں سامنے آنے والی آڈیو میں بظاہر جسٹس مظاہر نقوی نے ظاہر کیا ہے کہ قابل رسائی جج ہیں اور سیاسی اور آئینی اہمیت کے سنجیدہ امور پر وہ غیرجانبدار نہیں رہے ہیں۔
ریفرنس کے بارے میں مزید بتایا گیا کہ آئین پاکستان کے تحت بار کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آواز اٹھائے، قانون کی بالادستی اور آزاد اور غیرجانبدار عدلیہ کے لیے جدوجہد کرے۔خیبرپختونخوا بار کونسل کے دو عہدیداروں نے امید کا اظہار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جلد ہی اجلاس بلائے گی اور متعلقہ قواعد کے تحت شکایت پر کارروائی شروع کرے گی تاکہ مذکورہ جج کا احتساب ہو۔
خیال رہے کہ جسٹس مظاہر نقوی بارے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کی جانب سے خط سپریم جوڈیشل کونسل کے سر براہ چیف جسٹس پاکستان، جسٹس احمد علی شیخ، جسٹس امیر محمد بھٹی کو لکھا گیا تھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے اپنے خط میں کہا تھا کہ کونسل کا اجلاس بلا کر تعین کیا جائے کہ جسٹس مظاہر نقوی پر الزامات درست ہیں یا غلط ہیں۔خط میں کہا گیا تھا کہ اگر جسٹس مظاہر نقوی پر عائد الزامات غلط ہیں تو عدالت عظمیٰ کے جج کی عزت بحال کی جائے اور اگر ان کے خلاف لگائے الزامات درست ہیں تو آئین کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔عدلیہ کی آزادی اور اس پر عوام کے اعتماد کے لئے ضروری ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس فوری بلایا جائے۔
واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں متعدد شکایتی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ تاہم اب 3 اپریل کو بلوچستان بار کونسل نے بھی سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کردیا ہے۔سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور سپریم کورٹ کے جج کی مبینہ آڈیو لیک کے تناظر میں دائر ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کے حوالے سے سامنے آنے والی آڈیوز نہایت اہمیت کی حامل ہیں، تمام شواہد اور حالات جج کی شہرت کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ جج کے بیٹے لاہور میں وکالت کررہے ہیں۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہرنقوی اپنے اختیارات کا غیر قانونی استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کی سرپرستی کر رہے ہیں اس وجہ سے ان کے بیٹوں کو ہائی پروفائل مقدمات میں وکیل مقرر کیا جاتا ہے۔بلوچستان بار کونسل کی جانب سے دائر ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس مظاہرنقوی نے اپنی آمد ن سے زائد اثاثہ جات بھی بنا رکھے ہیں، عوام اور بارز کے اعتماد کیلئے جسٹس مظاہرنقوی کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
خیال رہے کی مسلم لیگ (ن) لائرز فورم پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔اسی طرح سے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل میاں داؤد نے بھی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف دائر کردہ 7 شکایات پر کارروائی کرنے اور سامنے آنے والی آڈیوز اور ویڈیوز بارے تحقیقات کئے بغیر ہی چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال آڈیوز اور ویڈیوز کو غیر اہم قرار دے کر جسٹس مظاہر نقوی پر عائد کردہ الزامات کو بے بنیاد اور توہین آمیز قرار دے چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے سی سی پی او لاہور تبادلہ کیس میں آڈیو اور ویڈیو لیکس پر برہم ہوتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ کو آڈیو ٹیپس کے ذریعے بدنام کیا جارہا ہے، ان آڈیو ٹیپس کی کوئی اہمیت نہیں، روزانہ آڈیوز،وڈیوز سامنے آرہی ہیں، ان آڈیو وڈیوز کی کیا کریڈیبیلٹی اور کیا قانونی حیثیت ہے؟ ہم صبر اور درگزر سے کام لے رہے ہیں۔دورانِ سماعت چیف جسٹس نےمزیدکہا کہ عدلیہ پر بھی حملے ہورہے ہیں سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے جسے آڈیوٹیپس کے ذریعے بدنام کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئینی اداروں کو بدنام کرنے والی ان آڈیو ٹیپس کی کوئی اہمیت نہیں، ہم صبر اور درگزر سے کام لے کر آئینی ادارے کا تحفظ کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آڈیو اور ویڈیو لیکس میں ہم پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگائے جارہے ہیں۔
تاہم اب دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر ججز کی جانب سے جسٹس مظاہر نقوی پر عائد الزامات کی تحقیقات کے مطالبے پر مبنی خط اور مسلسل دائر ہونے والے بار کونسلز کے ریفرنسز کا چیف جسٹس عمر عطا بندیال کیا جواب دیتے ہیں؟ یا ماضی کی طرح جسٹس مظاہر نقوی کو کسی اور اہم کیس کی سماعت کے لئے ساتھ بٹھا کر سینئر ججز کو خاموش پیغام دے دیتے ہیں کہ میں تمام تر الزامات اور ثبوتوں کے باوجود اب بھی جسٹس مظاہر نقوی کے ساتھ کھڑا ہوں