ارطغرل غازی کیا کوئی حقیقی کردار ہے یا افسانوی؟

مسلمانوں کی فتوحات کی کہانی پر مبنی شہرہ آفاق ترکش ڈرامہ ’دی ترک گیم آف تھرونز‘ یا ’دیریلیش ارطغرل‘ کی کہانی سلطنت عثمانیہ کے قیام سے قبل کی ہے اورمسلمان سپہ سالارارطغرل غازی کے گرد گھومتی ہے۔ ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ 13 ویں صدی کے ترک سپہ سالار ارطغرل غازی نے کس طرح منگولوں اور صلیبیوں کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ یہ ڈرامہ پاکستان میں اردو زبان میں پیش کیے جانے سے قبل ہی دنیا کے 60 ممالک میں مختلف زبانوں میں نشر کیا جا چکا ہے۔ یہ مقبول ترین ڈرامہ پانچ سیزن اور مجموعی طور پر 179 قسطوں پر مبنی ہے جسے 2014 میں ٹی آر ٹی پر نشر کیا گیا تھا اور اب یہ ڈرامہ ’نیٹ فلیکس‘ سمیت دیگر آن لائن اسٹریمنگ چینلز پر موجود ہے۔
پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران انٹرنیٹ صارفین نے اس ڈرامے کو یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر بڑی تعداد میں دیکھا۔ واضح رہے کہ ارطغرل نامی سپہ سالار کی وفات کے چند سال بعد ہی ان کے چھوٹے بیٹے ’عثمان‘ نے 13 ویں صدی کے آغاز میں ’سلطنت عثمانیہ‘ کے قیام کا اعلان کیا اور مسلمانوں کی یہ عظیم سلطنت تقریبا 600 سال تک یعنی 1920 تک قائم رہی۔ سلطنت عثمانیہ کو پہلی جنگ عظیم کے بعد انگریزوں نے سازش کے تحت ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اسی سلطنت میں موجود کئی علاقے آج دنیا کے نقشے میں آزاد ملکوں کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ چند ماہ قبل عمران خان نے ایک تقریب میں نہ صرف اس مقبول سیریل کو دیکھنے کی تجویز دی بلکہ اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ اس درامے کے پانچوں سیزنز کو اردو میں ڈب کرکے پی ٹی وی پر نشر کرنا چاہیے تاکہ پاکستانی عوام یہ سیریز دیکھ اور سمجھ سکیں۔ علاوہ ازیں عمران خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں صدر طیب اردوان اور ملائیشیا کے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ساتھ ملاقات میں اسلامی دنیا کا انگریزی زبان میں ایک الگ ٹی وی چینل قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔ اس تجویز کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی کہ ٹی وی چینل کے مؤثر پلیٹ فارم کے ذریعے نہ صرف بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کا مقابلہ کیا جائے بلکہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی جھلک بھی مغربی دنیا کو دکھائی جائے۔
ماہرین کے خیال میں عمران خان جیسے رہنماؤں میں دیریلش کی مقبولیت کے پیچھے چھپی اصل وجہ اس کہانی کے ذریعے دیا گیا امید کا پیغام اور مشکل سے مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہے۔ مشکل حالات میں گھرے مسلمانوں کی زخمی اجتماعی نفسیات کے لیے دیریلش سیریز مرہم کا کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔
’ترک گیم آف تھرونز‘ کے نام سے جانے والی دیریلش سیریز عالمگیر مقبولیت کی حامل ہے اور 60 سے زائد ملکوں میں اس ٹی وی شو کے مداحوں کی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ یہ ڈرامہ نہ صرف مغرب میں بکھرے مسلمانوں میں مقبول ہے بلکہ یہ مشرق وسطی، جنوبی افریقہ اور حیرت انگیز طور پر جنوبی امریکا میں بھی زبردست مقبولیت سمیٹ رہا ہے۔
سلطنتوں کے چوراہوں کے پس منظر پر مبنی اس ڈرامے میں ارطغرل غازی کی شخصیت، ان کے خاندان اور دوستوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ شمشیر زنی سے بھرپور ایکشن ایڈونچر سیریل دیریلش 12ویں صدی کے انطالیہ یعنی موجودہ ترکی میں مسلمان اوغوز ترکوں کی منگول حملہ آوروں، بازنطینی مسیحی اور مسلح صلیبی تنظیم کے جنگجوؤں ”نائٹ ٹیمپلرز“ کے صلیبی جنگجوؤں کے ساتھ ہونے والی لڑائیوں کی کہانیوں پر مبنی ہے۔
اس ڈرامہ سیریل کی ہر قسط میں روحانی اور زندگی کے اسباق سیکھنے کو ملتے ہیں کیونکہ یہ مرکزی کرداروں کو اخلاقی خامیوں اور انہیں ٹھیک کرنے کے حوالے سے بات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس ڈرامے کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اسکے مرکزی کردار کو اپنی ہی صفوں میں موجود غداروں کا چیلنج بھی درپیش ہوتا ہے۔ یہ دشمن ہمیشہ ارطغرل کی طرح ترک ہی ہوتے ہیں لیکن لالچ، تکبر یا حسد کی وجہ سے اپنی کامیابی کی خاطر وہ کسی بھی قسم کی بغاوت سے دریغ نہیں کرتے۔ ڈرامے کو لکھنے والے مہمت بوزدک نے تمسخر آمیزی سے اجتناب کرتے ہوئے قابلِ شناخت اور حیران کن طور پر پُرمعنی ولن کردار تخلیق کیے ہیں جو ضروری نہیں کہ دوسری دنیا کے شیطان جیسے نظر آتے ہیں۔ یہ سارے ولن بہادر، ذہین اور حیران کن طور پر روحانیت میں یقین رکھنے والے دکھائے گئے ہیں کیونکہ ان کرداروں کو عبادت یا مراقبہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
اس ڈرامہ سیریز کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ارطغرل کی طاقتور اور پُرعزم خواتین پاکستانی اور بھارتی ڈراموں میں روتی ہوئی خواتین سے بہت زیادہ مختلف نظر آتی ہیں۔ ڈرامے میں خواتین کو ضرورت پڑنے پر اکثر اوقات اپنے شوہروں کی جگہ بے یا سردار کا کردار ادا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، وہ تلواروں اور خنجروں سے لڑتی ہیں اور کسی کو خوش کرنے کی خاطر اپنے لیے چُنے گئے کسی مرد سے چپ سادھے شادی نہیں کرتیں چاہے وہ سلطان ہی کیوں نہ ہو۔
ڈرامہ نقادوں کے مطابق کہانی میں سے مذہبی پہلو نکال بھی دیا جائے تب بھی ارطغرل آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی اکتاہٹ نہیں ہونے دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button