آئینی بینچ کی فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے 85 ملزمان کو سزا سنانے کی اجازت

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے واقعات میں ملوث 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتےہوئے قرار دیا ہےکہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

سپریم کورٹ کا آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کےخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جہاں وزارت دفاع  کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔

سماعت کے آغاز میں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کےکیس کے علاوہ دیگر تمام کیسز کی سماعت موخر کرتے ہوئے کہاکہ آج صرف فوجی عدالتوں والا کیس ہی سنا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل ریمارکس دیے کہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کرکے ہر فرد کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟ اس پہلو کوبھی مدنظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟  خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیےکہ کل بھی کہا تھاکہ 9 مئی واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاوس کا ہے،اگر کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو بھی آگاہ کردیں، اس پر ایڈشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں،تفصیلات متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرواؤں گا۔

آئینی بینچ کی جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے انکے تحت ہونے والے ٹرائل کا کیا ہوگا؟ 9 مئی سے قبل بھی تو کسی کو ان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہوگی، وزارت دفاع کے وکیل نےجواب دیا عموماً کالعدم ہونے سے پہلے متعلقہ دفعات پرہوئےفیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے، اس پر جسٹس مسرت نے ریمارکس دیےکہ یہ تو اُن ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی۔

جسٹس مندوخیل نے کہاکہ افواجِ پاکستان میں کوئی شخص زبردستی نہیں،اپنی مرضی سے جاتا ہے، فوج میں شامل ہونےوالےکومعلوم ہوتا ہےاس پر آرمی ایکٹ لاگو ہوگا اور آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے،آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کےلیے ہے، اس پر وکیل خواجہ حار ث نے کہا کہ فوج میں کوئی بھی جرم کی نیت سےنہیں جاتا، بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کیا اپیل میں سپریم کورٹ صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک محدود رہےگی؟کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلو کابھی جائزہ لے سکتی ہے؟ اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیےکہ فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں لیکن عدالت نہیں۔

سماعت کے اختتام پر  آئینی بینچ نے کیس میں آج کی سماعت کا آرڈر جاری کرتےہوئے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دےدی۔

آئینی بینچ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کےفیصلےسپریم کورٹ میں زیرالتواء مقدمہ کےفیصلےسےمشروط ہوں گے،جن ملزمان کو سزائوں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کررہا کیا جائے،جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جاسکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کےبعد تک ملتوی کر دی۔

Back to top button