کپتان کے بلین ٹری پروجیکٹ میں کرپشن کی تحقیقات شروع

قومی احتساب بیورو نے خیبر پختونخوا میں ‘گرین گروتھ انیشیٹو’ کے تحت شروع کیے گئے بلین ٹری سونامی فارسٹیشن forestation پروجیکٹ میں اربوں روپوں کی کرپشن کے دس کیسز کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نیب نے ان کیسز کی تحقیقات کا فیصلہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے شروع کیے گے بلین ٹری پروگرام پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں اٹھائے جانے والے اعتراضات کے بعد کیا ہے۔ اسکے علاوہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو بھی بلین ٹری پروجیکٹ کے آڈٹ کے لیے باقاعدہ خط لکھا گیا تھا۔

قربانی کے جانور معیشت کی بہتری میں کیسے حصہ ڈالتے ہیں؟

نیب نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کو بتایا ہے کہ اس بے بلین ٹری پروجیکٹ بارے عائد کیے گئے بدعنوانی کے الزامات کی تحقیات شروع کر دی ہیں جن میں جنگلات کے لیے حاصل کی گئی زمین، پودوں کی مفت تقسیم، بیج کی فراہمی اور پولی تھین بیگز اور شجر کاری کے آلات کی خریداری کے معاملات شامل ہیں۔ نیب کا ڈائریکٹوریٹ جنرل خیبر پختونخوا ان الزامات کی چھان بین کے لیے چھ مختلف انکوائریاں اور چار تحقیقات کر رہا ہے۔

قومی احتساب آرڈیننس 1999کے مطابق شکایت موصول ہونے کے بعد نیب الزامات کی تصدیق کرتا ہے، پھر معاملے کی انکوائری کرتا ہے اور پھر اس انکوائری کو تحقیقات کے مرحلے میں لے جایا جاتا ہے۔ معاملے کی تحقیقات کے مرحلے کے بعد چیئرمین نیب کی منظوری سے انسداد بدعنوانی کا نگران ادارہ احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرتا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے نیب کو مالم جبہ کیس اور بینک آف خیبر اسکینڈل کی تحقیقات بھی دوبارہ سے شروع کرنے کی ہدایت کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بحال ہونے کا بھی امکان ہے جو یا تو تعطل کا شکار تھے یا ختم کردیئے گئے تھے۔ اسکے علاوہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب سے سپریم کورٹ میں بی آر ٹی کیس کی پیروی کرنے کو بھی کہا ہے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال جولائی میں نیب نے 275 ایکڑ مالم جبہ اسکیئنگ چیئر لفٹ ریزورٹ کیس میں تب کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان اور سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کو کلین چٹ دے دی تھی۔ نیب کی رپورٹ کے مطابق ان افراد کے خلاف انکوائری کو مجاز اتھارٹی نے 270 ایکڑ رقبے کی جنگلاتی زمین کو لیز کرنے، لیز کی مدت 15 سال سے 33 سال تک بڑھانے اور بولی کے عمل میں سنگین بے ضابطگیوں، اور قوانین کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تحقیقات کا اختیار دیا تھا۔ تب نیب بینک آف خیبر میں غیر قانونی تقرریوں کی بھی تحقیقات کر رہا تھا، تاہم یہ انکوائری 2 سال قبل بند کر دی گئی تھی۔

پارلیمانی احتساب کے ادارے پبلک اکاونٹس کمیٹی نے نیب کو پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ یعنی بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی کہا ہے۔ بی آر ٹی منصوبے کی انکوائری کا اختیار 20 جولائی 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 فروری 2018 کے حکم پر دیا گیا۔ پشار ہائی کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ کنٹریکٹ دینے میں تاخیر، ٹھیکہ دینے کا عمل، منصوبے کی فزیبلٹی اور پشاور بی آر ٹی منصوبے سے متعلق تمام معاملات مشکوک اور غیر شفاف ہیں، اس لیے نیب حکام کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ان کی تحقیقات اور انکوائری کریں اور آئندہ سماعت سے قبل اپنی رپورٹ پیش کریں۔

تاہم، پشاور ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف کے پی حکومت کو سپریم کورٹ سے ریلیف مل گیا تھا، عدالت عظمیٰ نے 31 اگست 2018 کو اپنے حکم نامے میں پشاور ہائی کورٹ کے حکم کی کارروائی کو معطل کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو عبوری ریلیف دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ لیکن اب پی ٹی آئی قیادت کے خلاف کیسز بحال کرنے کا فیصلہ طیبہ گل کی جانب سے نیب کے سابق چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال پر تازہ الزامات لگائے جانے کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔ طیبہ گل نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ وزیراعظم آفس کے سابق افسران بشمول وزیراعظم کے قریبی ساتھی اعظم خان اور طاہر اے خان نے ان پر دائر جھوٹے مقدمات ختم کرنے کے لیے چیئرمین نیب پر دباؤ ڈالا اور ایسا کرنے کے لیے ان کی جانب سے فراہم کردہ ویڈیوز کا ‘غلط استعمال’ کیا۔

Back to top button