روایتی صحافت کی تباہی

تحریر : نصرت جاوید
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت
امریکی صدر ٹرمپ نے بالآخر ’’وائس آف امریکہ‘‘ کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کے واشنگٹن میں موجود دفاتر کو تالے لگاکر ملازمین کو فی الوقت دو ماہ کی جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے امریکہ ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے بے تحاشہ ممالک میں صحافی ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار ہوں گے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وائس آف امریکہ کی بندش دنیا میں صحافت کے شعبے کے لئے ٹرمپ کی جانب سے متعارف کروایا ’’نائن الیون‘‘ ہوسکتا ہے۔
امریکہ صحافت کا محاورے والا ’’ہاتھی‘‘ شمار ہوتا ہے جس کے پائوں میں دیگر ممالک اپنے پائوں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی بندش مثال کے طورپر پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے ایک موثر حصے کو یہ سوچنے کو مجبور کرسکتی ہے کہ انہیں ’’ریڈیو پاکستان‘‘ اور پی ٹی وی‘‘ جیسے ادارے چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ دونوں ادارے مسلسل خسارے میں چل رہے ہیں۔ ہر حکومت ان کے ذریعے عوام کی ’’ذہن سازی‘‘ میں مصروف رہی۔ سودا مگر بکا نہیں۔ ریڈیو پاکستان کا اگرچہ ’’اثر‘‘ یاد کروں تو 1965ء کی جنگ یاد آتی ہے جب اس ادارے نے قوم کو بھارت مخالف جذبے میں یکجا کردیا۔ اس کے علاوہ چند پروگراموں نے زراعت کی ترقی اور سکول کے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
پی ٹی وی ابتداََ وطن عزیز میں ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کی مانند محسوس ہوتا تھا۔ 1974ء سے مگر ذوالفقار علی بھٹو کے دور ہی میں اسے ریڈیو پاکستان سمیت حکومتی پراپیگنڈہ کے فروغ کے لئے وقف کرنے کی روایت کا آغاز ہوا۔ جولائی 1977ء کے بعد جنرل ضیاء کے لگائے ’’نفسیاتی جنگ کے ماہر‘‘ جنرل مجیب الرحمن نے سیکرٹری انفارمیشن کی حیثیت میں ان دونوں اداروں کو حکومتی بھونپوئوں میں بدل دیا۔ رومن ایمپائر کے ظالم بادشاہوں کی طرح ضیاء دور میں عوام کی توجہ کرکٹ اور ہاکی کی جانب مبذول کروانے کی کامیاب کوشش بھی ہوئی۔ ان دو کھیلوں کی براہ راست نشریات ’’نفسیاتی جنگ‘‘ کے موثر حربے کی طرح استعمال ہوئیں۔ ’’ذہن سازی‘‘ پر کامل کنٹرول کے دن بالآخر تمام ہوئے۔ موبائل فون کا مالک ہر شخص خود کو اب ’’ذہن ساز‘‘ سمجھتا ہے۔ اس تناظر میں سوچیں تو بھاری بھر کم نشریاتی ادارے ’’قوم کی دولت‘‘ غرق کرتے محسوس ہوتے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک کے حکمران ٹرمپ سے متاثر ہوکر ریڈیو اور ٹیلی وژن کو ’’خزانے پر بوجھ‘‘ سمجھ کر بند کرنا چاہیں گے یا نہیں، فی الوقت میرا موضوع نہیں ہے۔ وائس آف امریکہ کی بندش کی خبر سنی تو چند قریب ترین دوستوں کی صورتیں ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ وہ ایمانداراور محنتی صحافی ہیں اور انہیں بہت مشکل حالات میں فیلڈ رپورٹنگ کرتے ہوئے حقائق ڈھونڈتے دیکھا ہے۔ ’’حقائق‘‘ آج کے قاری، ناظر یا سامع کو مگر درکار نہیں رہے۔ میں اس کالم میں جو بھی لکھوں عاشقان عمران اسے ’’لفافہ صحافی‘‘ کی سوچ قرار دیں گے۔ ان کی یہ سوچ مجھے حکومت کا چہیتا بناسکتی تھی۔ ’’وہاں‘‘ سے بھی لیکن خیر کی خبر نہیں آتی۔ تحریک انصاف کی نقالی میں حکمران مسلم لیگ نے بھی ایک سوشل میڈیا بریگیڈ تیار کررکھا ہے۔ وہ اس خاکسارکو ’’بوڑھا جیالا‘‘ کہتے ہوئے رد کردیتا ہے اور جن کا ’’جیالا‘‘ ہونے کا الزام ہے ان سے رسمی سلام دْعا ہوئے بھی مہینوں گزرچکے ہیں۔
سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد روایتی صحافت کی تباہی نے مجھ جیسے لوگوں کو ’’عمر بھر کا سفر رائیگاں‘‘ ہونے کا احساس دلایا ہے۔ ٹرمپ لیکن محض ایک فرد نہیں۔ دنیا کی طاقت ور ترین ریاست کا صدر ہے۔ نظر بظاہر فقط چار سال کے لئے منتخب ہونے کے باوجود وہ اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن سے منتخب صدر کے بجائے قرون وسطیٰ کے بادشاہوں کی طرح عمل کررہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وائس آف امریکہ میں ’’انقلابی‘‘ سوچ کے حامل افراد اہم عہدوں پر بیٹھ کر دنیا کو گمراہ کررہے ہیں۔ مذکورہ ادارے کی بندش مگر یہ سوچنے کو نہیں اکساتی کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ’’سامراجی کردار کو چھوڑ کر اپنی دنیا میں مگن رہنا چاہ رہا ہے۔
ٹرمپ اگر واقعتا ایسا سوچ رہا ہوتا تو چند عزیز ترین دوستوں کی وائس آف امریکہ کی بندش کی وجہ سے ہوئی بے روزگاری اور پریشانی بھلاکر شاید میں اس ادارے کو بند کرنے کا خیرمقدم کرنے کو مجبور ہوجاتا۔ ٹرمپ مگر نہایت رعونت سے اپنے ہمسائے کینیڈا کو امریکہ کی ایک اور ریاست پکارتا ہے اور اس کے منتخب وزیر اعظم کواس ریاست کا گورنر ٹھہراتا ہے۔ کینیڈا کے بارے میں اپنائے رویے کے علاوہ اس کے غزہ کے بارے میں خیالات ہیں جسے وہ فلسطینیوں سے پاک دیکھنا چاہ رہا ہے۔ غزہ کے علاوہ گرین لینڈ نامی جزیرے کو بھی امریکہ کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ یوکرین کی روس کے خلاف حمایت کے بجائے اس کے صدر کو روسی صدر کے آگے جھکنے کو دبائو بڑھارہا ہے۔ مذکورہ بالا مثالیں یہ سوچنے کو اکساتی ہیں کہ ٹرمپ کا امریکہ اپنی دنیا میں مگن رہنے کے بجائے سامراجی نظام کی سفاک اور بدترین مثالوں سے رجوع کرتے ہوئے دیگر ممالک کی زمین اور وسائل ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔
بھلے دنوں میں ایسی کاوشیں لوگوں کے ’’دل ودماغ جیتنے‘‘ کے نام پر ہوا کرتی تھیں۔ سفید فام امریکی اور یورپی اپنی دانست میں دنیا کو ’’تہذیب‘‘ سے آشنا کروانے کے لئے اتارے گئے تھے۔ ٹرمپ مگر دیگر سامراجی ذہن کے حامل افراد کی طرح ’’دل ودماغ جیتنے‘‘ کے بجائے کینیڈا ،غزہ اور گرین لینڈ جیسے خطوں کو ’’زمین کے ٹکڑے‘‘ سمجھتا ہے جو اس کے قبضے میں ہونا چاہیے تاکہ وہ ایک پراپرٹی ڈویلپر کی طرح انہیں (دیکھنے میں) جدید تر بنا سکے۔ اس حوالے سے ٹرمپ کے آئندہ چار سالوں کے بارے میں سوچتے ہوئے دل گھبراجاتا ہے۔ دنیا کے نقشے میں کسی بھی مقام پر انگلی رکھ کر وہ اسے ہر صورت ہتھیانا چاہے گا۔ سامراجی قبضہ گیری کی ایسی مثال 2025ء میں ابھرنے کا تصور ہم سادہ لوحوں کے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔
چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط ششم)
ہمارے چند سادہ لوح دوست اگرچہ ٹرمپ سے یہ امید باندھے ہوئے تھے کہ وہ منتخب ہوتے ہی پاکستان میں ’’اصلی جمہوریت‘‘ کا نفاذ یقینی بنائے گا۔ جمہوری نظام کا ادنیٰ حامی ہوتے ہوئے اس کالم میں مسلسل یاد دلانا پڑا کہ ہمارے ملک میں 1950ء کی دہائی سے ا مریکہ نے جمہوری حکومتوں یا نظام کو ترجیح نہیں دی۔ ایوب خان سے گہری دوستی کے بعد امریکہ جنرل یحییٰ سے ہوتے ہوئے جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کا دوست ہی نہیں بلکہ ’’جنگی اتحادی‘‘ ہوا ہے۔ ان جیسی پذیرائی ہمارے کسی بھی جمہوری رہ نما کو نصیب نہیں ہوئی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ٹرمپ روزانہ کی بنیاد پر کوئی شوشہ چھوڑتے ہوئے واضح کئے چلاجارہا ہے کہ پاکستان تو دور کی بات ہے امریکہ میں بھی جمہوریت کا نفاذ واستحکام اس کا درد سر نہیں۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کے ریاستی نظام نے اس کے ساتھ ’’زیادتی‘‘کی۔ اسے عدالتوں سے عورتوں کا منہ بند کرنے کے لئے رقم خرچ کرنے کے الزام کے تحت سزا سنوائی۔ اسے ’’مجرم‘‘ کی طرح رکھا گیا۔ چیک اینڈ بیلنس پر مبنی اس نظام کو اب وہ منتقم المزاج آمر کی طرح تباہ کرنے کو ڈٹا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ہٹلر بھی ’’عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر‘‘ اقتدار میں آیا تھا اور اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے اسی نظام کے پرخچے اڑادئے جس نے اسے جرمن قوم کا رہ نما بنایا تھا۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتے ہیں کہ نام نہاد چیک اینڈ بیلنس پر مبنی نظام ٹرمپ کو دورِ حاضر کا ہٹلر بننے نہ دے۔