ڈی جی ISPR کی بریفنگ کے بعد حکومت کی سانسیں بحال
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل افتخار بابر کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن سے کسی ڈیل کی خبروں کو سختی سے مسترد کیے جانے کے بعد اب حکومتی وزرا کے پژ مردہ چہروں کی رونق دوبارہ سے بحال ہونا شروع ہو گئی ہے۔ افتخار بابر نے ڈیل کی افواہیں تب مسترد کیں جب انہیں ایک بریفنگ کے دوران یہ سوال کیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے مابین کوئی ڈیل ہونے جارہی ہے جسکے نتیجے میں پینٹی آئی حکومت گھر بھیج دی جائے گی؟ جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ڈیل کی باتوں کو قیاس آرائیاں قرار دے کر مسترد کر دیا۔
راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف سے ڈیل سے متعلق سوال پر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اگر کوئی اس طرح کی بات کرتا ہے تو اسی سے پوچھیں کہ ڈیل کون کررہا ہے اور اس کے محرکات کیا ہیں؟ ایسی کوئی چیز نہیں ہو رہی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے سے پاکستان کے مختلف اداروں کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے جس کا مقصد حکومت، عوام اور اداروں کےدرمیان خلیج پیدا کرنا اور اداروں پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہے، ہم ایسی تمام سرگرمیوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان کے لنکس سے بھی آگاہ ہیں، یہ لوگ پہلے بھی ناکام ہوئے اب بھی ناکام ہوں گے‘۔فوجی ترجمان نے کہا کہ ٹی وی پروگرامز میں کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ کر دیا، وہ کر دیا، لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لہٰذا آپ لوگ اسٹیبلشمنٹ کو اس سب سے دور رکھیں۔
تاہم میجر جنرل افتخار بابر کے اس موقف پر ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ جیسے میڈیا اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں گھسیٹتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں 32 برس فوجی آمر برسراقتدار رہے ہیں اور موجودہ حکومت کو بھی اسٹیبلشمنٹ کا سویلین چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی موجودہ فوجی قیادت پر عمران خان کو برسر اقتدار لانے کے لیے 2018 کے الیکشن میں دھاندلی کروانے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف خود بتا چکے ہیں کہ ان کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے عمران خان اور طاہرالقادری کی جماعتوں کے مشترکہ دھرنے کے عروج پر انہیں یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ فوری استعفا دے دیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ کیا یہ حقیقت فراموش کی جا سکتی ہے کہ ایک اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا نے آصف زرداری کی حکومت کے خلاف جھوٹا میمو گیٹ سکینڈل کھڑا کیا تھا تا کہ اپنے عہدے میں توسیع حاصل کر سکے۔ مسلم لیگ ق کے سربراہان چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین بھی ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ پاشا انکی جماعت کے لوگوں کو توڑ کر تحریکِ انصاف میں شامل کروانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
ناقدین پاکستانی سیاست میں فوجی مداخلت کا ثبوت دیتے ہوئے یاد دلاتے ہیں کہ سابق ڈی جی آئی ایس پی میجر جنرل آصف غفور نے تو الیکشن 2018 میں پی ٹی آئی کی کامیابی پر ٹوئیٹ کیا تھا کہ وتعز من تشاء وتذل من تشاء۔ لیکن اب افتخار کہتے ہیں کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں، اور نہ وہ نواز شریف سے بات کر رہی ہے، انہوں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کا سارا مدعا میڈیا پر ڈال دیا ہے ہے جو کہ معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور وہی رپورٹ کرتا ہے جو ہو رہا ہوتا ہے۔
پیپلزپارٹی کا حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان
ناقدین کہتے ہیں کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی فوج کو سیاست میں وزیراعظم عمران خان نے گھسیٹا جب انہوں نے اپنی ترجمانوں کے اجلاس میں یہ بیان داغا کے نواز شریف کو ڈیل کے ذریعے ملک واپس لاکر چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ ایک سزا یافتہ مجرم کیسے وزیر اعظم بن سکتا ہے؟ ناقدین سوال کرتے ہیں کہ کیا ڈیل کا الزام عمران خان نے اپوزیشن پر لگایا تھا یا اسٹیبلشمنٹ پر چونکہ اپوزیشن تو کسی ڈیل کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہی وہ موجودہ حالات میں اپنی مرضی کا وزیراعظم بنا سکتی ہے۔
وزیراعظم کے اسی بیان کے بعد ڈیل کی افواہوں اور کپتان حکومت کے جانے کی افواہوں نے زور پکڑا۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے اپوزیشن کے ساتھ کوئی ڈیل نہ کرنے کے اعلان کے بعد حکومتی وزراء کی سانسیں بحال ہوئی ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے خان صاحب کی بھی کچھ ڈھارس بندھی ہوگی۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کی نواز شریف سے ڈیل کے لیے کوئی بات چیت نہیں چل رہی تو اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں کیونکہ اب یہ طے ہونا چاہیئے کہ سیاست صرف سیاستدانوں کو ہی کرنی ہے فوج کو انہیں اور ریاستی ادارے سیاست سے جتنے دور رہیں گے، پاکستان اور ان اداروں کی سالمیت کے لئے اتنا ہی اچھا ہے۔