کپتان نے خودکشی کی ذمہ داری پاکستانی عوام پر کیسے ڈالی؟
اقتدار میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دینے کا عزم کرنے والے عمران خان کی حکومت اس وقت آئی ایم ایف سے قرضے کی تیسری قسط ملنے پر جشن منانے میں مصروف ہے کیونکہ یہ قرض حکومت نے نہیں بلکہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام نے ادا کرنا ہے جن پر اب مزید ٹیکس عائد ہونے جا رہے ہیں۔
لہذا اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لے کر خود کشی کرنے کی ذمہ داری بھی اب وزیراعظم عمران خان نے عوام پر کو سونپ دی یے۔ معروف لکھاری اور تجزیہ کار عمار مسعود اپنی تازہ تحریر میں حکومت کی جانب سے سے قرضے کی نئی قسط حاصل کرنے سے پہلے کے لمحات کی منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کابینہ کے ارکان دم سادھے بیٹھے تھے، کسی کے ہاتھ میں تسبیح تھی، کوئی وظیفہ پڑھ رہا تھا.
کسی کے ہاتھ دعا کے لیے بلند تھے، کوئی گھڑے میں سے پرچیاں نکال نکال کر مستقبل کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہا تھا، کسی نے ریمنڈ ڈیوس کے عدالتی فیصلے کی طرح ، کسی اہم شخصیت سے فون ملایا ہوا تھا اور سرگوشیوں میں اپ ڈیٹ دے رہا تھا، کسی نے وٹس ایپ پر پیام رسانی کا فریضہ اپنایا ہوا تھا۔
کانفرنس روم میں گہری خاموشی تھی۔ انکے بقول ایسا لگتا تھا کہ ذرا سی آہٹ بھی ارکین کابینہ کے استغراق کو توڑ دے گی۔ سب لوگ ایسے بیٹھے تھے جیسے میٹرک کے امتحان کا نتیجہ آنے والا ہو یا 1992 کے ورلڈ کپ میں آخری گیند ہونے والی ہو۔ نہ کوئی کسی کی جانب دیکھ رہا تھا نہ آپس میں گفتگو کا کوئی متمنی تھا۔ کمرے میں ہو کا عالم تھا۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ یہ حال صرف ایک کانفرنس روم کا نہیں تھا بلکہ سارے ملک میں پی ٹی آئی کے چاہنے والوں پر تشنج کی کیفیت طاری تھی۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وقت کی رفتار کو روک لیں۔ ٹک ٹک کرتی گھڑی کی سوئیوں کو تھام لیں۔ ایک انجانے خوف سے سب لرز رہے تھے۔ ٹائیگر فورس بھی منتظر تھی کہ ایک دفعہ خبر آ جائے پھر مخالفین کے لتے لیتے ہیں۔
اگر ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟ اگر ایسا نہ ہوا تو کیا ہو گا ؟ اسی امید و بیم کے درمیان وقت بسر ہو رہا تھا۔ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ تازہ خبروں کے لیے کسی نے ٹی وی پر نظریں جمائی ہوئی تھیں، کسی نے ٹوئٹر کو دیکھنا پسند فرمایا ہوا تھا۔ کوئی فیس بک پر لائیو اپ ڈیٹ دیکھ رہا تھا۔ زیادہ ماڈرن لوگ بین الاقوامی چینلز اور بین الاقوامی اخبارات اور جریدوں کا مطالعہ کر رہے تھے۔ سب کے سانس رکے سے ہوئے تھے۔ کچھ ہو جانے کا خوف سب کے چہروں پر واضح دکھائی دے رہا تھا۔
بیرون ملک پاکستانی جہاں پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کی ابھی بھی کوئی کمی نہیں وہ بھی ایک مبارک لمحے کے انتطار میں تھے جس میں نعرہ مستانہ بلند کر سکیں۔ ڈھول کی تھاپ پر رقص کر سکیں۔’جب آئے گا کپتان‘ والے گیت پر بھنگڑے ڈال سکیں۔
عمار مسعود بتاتے ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کو عمران خان اس لیے بھی عزیز ہے کہ انہیں اس ملک میں رہنے زیادہ رہنے اور یہاں کی صورتِ حال کو براہِ راست دیکھنے کا شرف ہی حاصل نہیں ہوتا۔
ان کی اکثریت اپنے پاکستانی رشتہ داروں کو دنیا کی جمہوریتوں کی مثالیں دیتی ہے۔ وہاں کے ٹریفک کے نظام، اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کے قوانین سمجھاتی ہے۔ ان میں سے بیشتر یہی سمجھتے ہیں کہ کیا ہوا کہ مہنگائی ہو گئی، کیا ہوا کہ خان ’سلیکٹڈ‘ ہے؟ کیا ہوا کہ ملک کا تیاپانچہ صرف تین برس میں ہو گیا دیا مگر خان کرپٹ تو نہیں ہے نا۔ اسی دلیل کے سہارے زندہ رہنے والے بھی ایک بڑی خوشخبری کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ بھی ایک بڑی کامیابی کے منتظر تھے۔
اپوزیشن کا دلاورخان گروپ سے کلئیر پوزیشن لینے کا مطالبہ
انہیں بھی یوں لگتا تھا کہ تھا جس کا انتطار تھا وہ شاہکار آنے والے والا ہے۔ جس انقلاب کے وہ منتظر تھے وہ انقلاب آنے والا ہے۔ ٹائیگر فورس بھی منتظر تھی کہ ایک دفعہ خبر آ جائے پھر مخالفین کے لتے لیتے ہیں۔ وہ بچے جو ابھی کم سن ہیں جن کی مسیں بھی نہیں بھیگیں وہ مطالعہ پاکستان پر لیکچر دینے کو تیار تھے۔ سوشل میڈیا والوں کے ہاتھ موبائل اور لیپ ٹاپ پر دھرے تھے کہ ایک دفعہ خبر آ جائے پھر دیکھتے ہیں ان پٹواریوں کو۔
عمار مسعود منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نئی گالیوں کا رجسٹر بھی ساتھ میں دھرا ہوا تھا۔ لوگوں کی داستانوں کے قصے بھی ازبر یاد کیے جا رہے تھے۔ سب ایک خبر کے منتظر تھے۔ بس ایک دفعہ کامرانی کی خبر سامنے آجائے پھر ہم ’گالیوں‘ کی طاقت سے دشمن کو شکست دیں گے۔ یوٹیوب کی مدد سے نیا عمرانی پلان لوگوں کو سمجھائیں گے۔ صدارتی نظام کے فضائل گنوائیں گے۔ بتائیں گے کہ کس طرح اس حکومت کو اگلے 25 سال چلنا چاہیے تاکہ ماضی کا گند ختم ہو سکے اور نیا گند ڈالا جا سکے۔
بتائیں گے کس طرح عمران خان نے نہ صرف اندرونی دشمنوں کو شکست دی بلکہ امریکہ کو بھی گھنٹے ٹیکنے ہر مجبور کردیا۔ کس طرح روس کو ناکوں کے چنے چبوا دیے۔ کس طرح چین کو ’جھکنے‘ پر مجبور کر دیا۔ کس طرح برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کو شکست فاش عطا کی۔ بقول عمار، وقت کم رہ گیا تھا اب کسی لمحے بھی خبر آ سکتی تھی۔ اب دعاوں میں تیزی آ گئی تھی۔ اب ریاضتیں مستجاب ہونے کو تھیں۔
22 سالہ جدوجہد ثمر آور ہونے والی تھی۔ سب کی نظریں منتظر تھیں کہ اچانک ٹویٹر پر وزیر خزانہ شوکت ترین کا ٹویٹ نمودار ہوا۔ جس میں آئی ایم ایف سے نئی قسط ملنے کی نوید سنائی گئی۔ اس خبر کا آنا تھا ۔ پورے ملک میں جشن کا سماں ہو گیا۔ بھنگڑے، ڈھول ، ترانے اور رقص سب ایک ساتھ شروع ہو گیا۔ کابینہ کے وزراء نے ایجنڈے کی کاپیاں ہوا میں اچھال دیں۔
اندرون ملک پاکستانیوں نے خان کی کامیابی پر صد سالہ جشن کا اعلان کر دیا۔ اور سیز پاکستانی خان کی تصویروں کی بلائیں لینے لگے۔ ٹائیگر فورس گھر گھر جا کر بتانے لگے کہ ’ہم کامیاب ہو گئے‘، سوشل میڈیا والوں نے تو سر پر قیامت ہی اٹھا لی۔ گالیوں کے وہ نئے مفاہیم سامنے آئے جو تاریخ انسانی کے لئے بالکل نئے تھے۔
عمار کہتے ہیں کہ اس ماحول میں کسی سیانے نے تحریک انصاف والوں سے پوچھا کہ اتنا جشن، اتنی خوشی وجہ کیا ہے؟ تحریک انصاف کے کارکن، کابینہ اور اور سیز پاکستانی یک زبان ہو کر بولے کہ لوگ اس لیے خوشیاں منا رہے ہیں کہ ہمیں ائی ایم ایف سے مذید قرضہ مل گیا ہے، ہم قرض کی دلدل میں مزید گہرے پھنس گئے ہیں اور ہمیں حکومت میں مزید کچھ مہینے مل گئے ہیں۔