کیا ڈیل کرنے والوں کو بشری بی بی کی رہائی کا فیصلہ الٹا پڑ گیا؟
عمران خان کی تیسری اہلیہ بشری بی بی عرف پنکی پیرنی کی جانب سے اسلام آباد احتجاج کی قیادت اور فیصلہ سازی سنبھالنے کے بعد اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا
وہ سیاست میں باقاعدہ انٹری ڈال چکی ہیں یا صرف عمران خان کی کمی پورا کرتے ہوئے انکی رہائی کی کوشش کر رہی ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا بشری اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ایک ڈیل کے تحت رہا کی گئی تھیں اور کیا انکی جانب سے عمران کی رہائی کے مطالبے پر ڈٹ جانے کے بعد فیصلہ سازوں کو اسکا فائدہ ہوا ہے یا نقصان؟
یاد رہے کہ جب اتوار کو تحریکِ انصاف کا قافلہ پشاور سے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا تو تب میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ خیبرپخونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور اس کی قیادت کریں گے جبکہ بشریٰ بی بی بھی اس میں شامل ہوں گی۔ تاہم جوں جوں قافلہ اسلام آباد کی جانب بڑھتا گیا، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بشریٰ بی بی کی ایسی ویڈیوز شیئر کی جانے لگیں جن میں وہ کارکنوں کا جذبہ بڑھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تاہم جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب بشری بی بی نے قافلہ روک کر کارکنان سے خطاب کا فیصلہ کیا اور پھر احتجاجی جلوس کی قیادت سنبھال لی۔ انھوں نے قافلے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک خان ہمارے پاس نہیں آئیں گے، یہ مارچ ختم نہیں کریں گے۔ میں آخری سانس تک کھڑی رہوں گی اور آپ نے میرا ساتھ دینا ہے۔‘
بشری بی بی کا اس احتجاج میں یہی متحرک کردار حکومتی وزرا کے بیانات کا حصہ بھی بنا۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ تحریک انصاف کا قافلہ اب اپنی منزل کے قریب ہے تو وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ ’جو خاتون احتجاج کو لیڈ کر رہی ہیں انھیں پتا ہے کہ میں اسلام۔آباد تک پہنچ کر لیڈر بن گئی ہوں، چونکہ انھیں اپنا سیاسی مستقبل دکھائی دے رہا ہے، اس لیے اب وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
اسی طرح وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی جانب سے بھی پریس کانفرنس کے دوران کہا گیا کہ ’پی ٹی آئی کو سنگجانی میں احتجاج کرنے کی آفر دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اڈیالہ جیل میں عمران خان سے پہ ٹی آئی رہنماؤں کی دو ملاقاتیں ہوئیں اور انہیں وہاں سے اجازت بھی مل گئی تھی، لیکن شاید اب عمران سے اوپر بھی کوئی لیڈرشپ آ گئی ہے جس نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بشریٰ کی سیاست میں باقاعدہ انٹری ہے یا عمران خان کی کی کمی پورا کرنے کی ایک کوشش؟
عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کے احتجاج کی کال دیے جانے اور توشہ خانہ کیس میں ضمانت پر رہائی کے بعد سے بشریٰ بی بی سیاسی منظرنامے پر کسی حد تک متحرک دکھائی دی ہیں۔
اس احتجاج کے پس منظر میں کچھ دن قبل ہی بشریٰ بی بی کا ایک ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’عمران خان جب ننگے پاؤں مدینہ شریف گئے اور واپس آئے تو جنرل باجوہ کو کالز آنا شروع ہو گئیں کہ یہ تم کیا اُٹھا کر لے آئے ہو۔ ہم تو ملک میں شریعت ختم کرنے لگے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو لے آئے ہو۔ ہمیں یہ نہیں چاہیے۔ اس بیان کے بعد بشریٰ کو سیاسی و حکومتی حلقوں کی جانب سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اُن کے اس بیان کو پاکستان اور سعودی عرب کے ’تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش‘ قرار دیا تھا۔
دراصل بشری نے اپنے اس خطاب میں عسکری حلقوں کو مخاطب کر کے عمران کی رہائی سے متعلق بھی ایک پیغام دینے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’میں اداروں کو بھی یہ بتانا چاہتی ہوں کہ عمران خان طاقت میں آ کر کسی سے بدلہ لینے کی خواہش نہیں رکھتے، جیل میں انھوں نے سیکھا ہے کہ طاقت میں آ کر معافی کا دروازہ کُھلا رکھتے ہیں، جو بھی ان کے حوالے سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ بدلہ لیں گے تو یہ سب جھوٹ ہے۔‘
اگرچہ بشریٰ بی بی ماضی قریب میں واضح کر چکی ہیں کہ اُن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ سیاست میں آنا چاہتی ہیں اور وہ یہ سب کچھ صرف عمران خان کی اہلیہ ہونے کے ناطے ان کا پیغام پہنچانے کے لیے کر رہی ہیں تاہم سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کے اسلام آباد مارچ میں ان کے متحرک کردار نے اس بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا یہ اُن کی سیاست میں باقاعدہ انٹری ہے یا وہ کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے عمران خان کی کمی کو پورا کر رہی ہیں؟
سینئیر صحافی و تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے یہ غیر معمولی حالات ہیں۔ اُن کے لیڈر عمران خان ایک سال سے زائد عرصے سے جیل میں بند ہیں۔ ایسے میں علیمہ خان ہو، عظمیٰ خان ہو یا بشریٰ بی بی یہ سب اُن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سیاسی منظر نامے پر سامنے آئیں ہیں۔ امتیاز گل کا کہنا تھا کہ بشریٰ کے بیانات یا پارٹی معاملات میں کردار کو اُن کی سیاست میں انٹری کہنا کچھ قبل از وقت ہے بلکہ اُن کا یہ کردار کارکنوں اور پارٹی کو متحرک رکھنے اور عمران خان کے خلا کو پر کرنے کے لیے ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جیسے میں پیپلز پارٹی کا تصور بھٹو خاندان، مسلم لیگ ن کا تصور شریف خاندان کے بِنا ادھورا ہے ایسے ہی پی ٹی آئی کے لیے عمران خان لازمی ہیں۔ اب ان کی غیر موجودگی میں بشریٰ بی بی بطور اہلیہ یہ خلا پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ وراثتی سیاست نہیں جس پر ماضی میں عمران خان اپنی حریف جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں پارٹی چئیرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا یے تھا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے لیے حالات غیر معمولی ہیں۔ جب کوئی پارٹی سربراہ جیل میں قید ہو تو اس کے گھر والوں کو ہی سامنے آنا پڑتا ہے، بشریٰ بی بی بھی اسوقت بالکل ویسے ہی سیاسی منظرنامے پر موجود ہیں جیسے ماضی میں نواز شریف کے جیل جانے کے بعد ان کی اہلیہ کلثوم نواز کچھ وقت کے لیے متحرک ہوئی تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ موروثیت یہ نہیں کہ عمران خان کی جگہ اب ان کی بہنیں یا اہلیہ پارٹی معاملات میں متحرک ہیں بلکہ اگر وہ اپنے اہلیہ یا بہنوں کو کوئی عوامی عہدہ دیتے ہیں یا کسی سرکاری عہدے پر تعینات کرتے تو یہ موروثیت ہوتی۔
تاہم دوسری جانب سینئیر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی اور انکے خاندان کو جانتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ سابقہ خاتون اول مستقبل میں بھی پارٹی اور ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں گی۔ سلمان غنی کا کہنا ہے کہ بشریٰ ایک پرجوش شخصیت کی حامل ہیں اور پی ٹی آئی کا مارچ ان کی سیاست میں انٹری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی وہ پس پردہ رہ کر سیاسی معاملات میں کردار اور فیصلہ سازی کرتی رہی ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال عثمان بزدار کا وزیر اعلیٰ پنجاب بننا تھا۔ سلمان غنی کہتے ہیں کہ عمران کے دور اقتدار میں بشریٰ پر پنجاب میں تمام سیاسی و انتظامی عہدوں پر اپنے مرضی کے بندے لگوانے کا الزام لگتا تھا اور یہ ان کا سیاست میں کردار اور فیصلہ سازی کو ظاہر کرتا ہے۔
رینجرز اہلکاروں پر حملے کی فوٹیج سامنے آگئی
معروف تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اصل سوال یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ کئی مقدمات میں شریک ملزمہ ہونے کے باوجود بشری بی بی جیل سے باہر کیسے آ گئیں۔ انکے مطابق عمران پر قائم مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو 190 ملین پاؤنڈ ہو یا توشہ خانہ بشریٰ بی بی ان مقدمات میں فریق ہیں۔انھوں نے کہہ اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی ضمانت پر رہائی بھی پراسرار ہے اور یہ ایک خاص مقصد کے تحت تھی تاکہ وہ عمران خان کی غیر موجودگی میں اپنا سیاسی کردار کھل کر ادا کر سکیں۔ بشری کی رہائی سے خان کے خاندان اور پارٹی میں اختلافات تو پیدا ہوئے لیکن انکی جانب سے عمران کی رہائی کے مطالبے پر ڈٹ جانے کے بعد لگتا ہے کہ فیصلہ سازوں کو یہ فیصلہ الٹا پڑ گیا ہے۔