عمران کو نکالنے کی سازش امریکہ نے کی یا فوج نے؟
اقتدار سے برخاست ہونے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان شدید ذہنی کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔ کبھی وہ اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکہ پر ڈالتے ہیں اور کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ کبھی وہ اپنے حمایتیوں کو فوج کے خلاف گالی گلوچ نہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور کبھی وہ خود فوج کو وارننگ دیتے نظر آتے ہیں۔
اس کنفیوژن کا اظہار عمران نے 21 اپریل کو مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے میں بھی کیا۔ وزیر اعظم کی کرسی سے اتارے جانے کے بعد سے عمران نے اپنی حکومت گرانے کا مدعا امریکہ کی سازش پر ڈالا ہے، اس کے بعد انھوں نے عوام سے اپیل کی کہ اس سازش کے خلاف وہ گھروں سے باہر نکلیں۔ لاہور کے جلسے میں بھی اس مطالبے کا تسلسل دیکھا گیا۔
پہلے ایک سانس میں عمران خان نے اپنے حمایتیوں کو تلقین کی کہ فوج ایک قومی ادارہ ہے اور ہمیں اس پر تنقید کرنے کی بجائے اس کا ساتھ دینا ہوگا، لیکن اگلے ہی سانس میں عمران نے کہہ دیا کہ اسلام آباد میں چوروں کو حکومت دینے کی غلطی جس سے بھی ہوئی ہے، وہ اسے ٹھیک کریں اور اسکا ایک ہی طریقہ ہے کہ فوری الیکشن کروانے جائیں، موصوف نے مزید فرمایا کہ بھٹو کو پھانسی دینے والے میر جعفر نے شہباز شریف جیسے چور کو وزیراعظم بنا دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں تصادم نہیں چاہتا لیکن مجھے آخری حد تک جانے پر مجبور نہ کیا جائے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کا ٹارگٹ فوجی اسٹیبلشمنٹ تھی۔ انہوں نے موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عوام سے کہا کہ میری کال کا انتظار کرو جب میں آپ کو اسلام آبادکی طرف لانگ مارچ کی کال دوں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کا لاہور کا جلسہ ان تمام جلسوں سے چھوٹا تھا جو انہوں نے مینار پاکستان پر ماضی میں کیے ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اب تک کنفیوژن کا شکار ہیں کہ اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکہ پر ڈالیں یا فوج پر۔
اسی لیے وہ اپنے ہمدردوں کو فوج پر تنقید نہ کرنے کا کہتے ہیں لیکن پھر خود تنقید کر دیتے ہیں، اسی طرح وہ امریکہ پر سازش کا الزام بھی لگاتے ہیں لیکن پھر امریکی اہلکاروں سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں۔
لاہور جلسے میں عمران نے شرکا کو مخاطب کرکے کہا کہ میں آپ کو آزاد کروانے آیا ہوں اور کسی کے سامنے نہیں جھکنا ہے، میں چاہتا ہوں آپ اپنا مقام سمجھیں، جس دن آپ لاالہ اللہ کا مطلب سمجھیں گے اس دن زنجیریں ٹوٹ جائیں گے لیکن یہ چور ملک کے حکمران رہے تو ہمارا ملک کبھی آگے نہیں بڑھے گا اور پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہوگی، بھٹو کے دور میں تھوڑے عرصے کے لیے آزاد ہوئی لیکن اتنی غلام بھی نہیں ہوئی جنتی ان تین اسٹوجز کے دور میں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ایمل کانسی کے وکیل نے امریکی عدالت میں کہا کہ پاکستانی اپنی والدہ کو ڈالروں کے پیچھجے اپنی والدہ بیچیں گے، اور وہ دور نواز شریف کا تھا، ہم نہیں بیچیں گے نواز شریف بیچے گا کیونکہ وہ پیسے کا پجاری ہے، پھر جنرل مشرف کے دور میں پکڑ پکڑ پاکستانیوں کو گوانتاموبے میں بھیجا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے پاکستان کی حقیقی آزادی کے لیے تحریک چلانا ہے، ہمارے مخالف سمجھتے ہیں، مینار پاکستان کے بعد کیا ہوگا، کان کھول کر سن لو، اصل پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے۔نان کا کہنا تھا کہ میں تحریک انصاف کو کال نہیں دے رہا، سارے پاکستانیوں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو بھی جو اس ملک میں آزادی چاہتے ہیں اور پتہ نہیں کتنی بڑی سازش ہوئی، پیغام دے رہا ہوں کہ سب نے تیاری کرنی ہے، گلی گلی، محلے، شہروں، گاؤں میں سب نے آج سے تیاری شروع کرنی ہے، میری کال کا انتظار کرنا ہے جب میں اسلام آباد بلاؤں گا۔
انہوں نے کہا میں واضح کروں کہ میں کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتا، یہ میرا ملک ہے، اس ملک سے باہر جانے کی میری کوئی جگہ نہیں ہے، یہ تو تھوڑی مشکل آتی ہے تو باہر جاتے ہیں، لگتا ہے ملکہ ان کی رشتہ دار ہے، یہ لوگ جب مشکل ہوتی ہے تو باہر جاتے ہیں، میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے۔ عمران کا کہنا تھا کہ میں کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتا، پولیس اور فوج ہماری ہے، اگر ہمارے پاس ایک طاقت ور فوج نہیں ہوتی تو ہمارے تین ٹکڑے ہوتے، ہمارے دشمن اس لیے کامیاب نہیں ہوا کیونکہ ہماری قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے، مشرف نے ایک غلط فیصلہ کیا لیکن ہماری فوج نے جس طرح قربانیاں دیں اس پر ہم اپنی فوج اور پولیس کو داد دیتے ہیں۔
ہم نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیرعمران کو نکال باہر کیا
اپنی روایتی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہم اس ملک کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ہیں لیکن کسی صورت اس امپورٹڈ حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ میں بس یہی چاہتا ہوں جلدی سے جلدی انتخابات کا اعلان کیا جائے، ہم جمہوری جماعت ہیں اور جمہوریت چاہتے ہیں، لہذا جن سے بھی غلطی ہوئی ہے، اس کو ٹھیک کرنے کا ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ فوری الیکشن کراؤ۔