Do or Die
تحریر : حماد غزنوی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
اماں جان کو اردو اور فارسی کے بہت سے اشعار یاد تھے جو ان کی گفتگو میں برمحل در آتے تھے، اسی طرح انہیں انگریزی کی کچھ نظمیں بھی حفظ تھیں، جیسے ورڈزورتھ کی ’’وی آر سیون‘‘ اور ’’ڈیفوڈلز‘‘، وہ لارڈ ٹینی سن کی نظم کایہ حصہ بھی اکثر سنایا کرتی تھیں:
Theirs is not to reason why
Theirs is but to do or die
یہ ہمارا ’’ڈو اور ڈائی‘‘ سے پہلا تعارف تھا۔اورتا حال آخری دفعہ ہمارا واسطہ اس محاورے سے کچھ ہی دن پہلے پڑا ہے، جب عمران خان نے چوبیس نومبر کے احتجاج کو فائنل کال اور ’’ڈو اور ڈائی‘‘ قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ ٹینی سن کی ’’ڈو اور ڈائی‘‘ والی نظم ’’دی چارج آف دی لائٹ بریگیڈ‘‘ جنگ کے حوالے سے لکھی گئی ایک نظم تھی، ایک ایسی جنگ جس میں برطانوی فوج کے ایک مختصر سے جتھے کو روس کی طاقت ور فوج پر تاخت کا حکم دیا گیا، اور یہ حکم بھی ابہام سے پُر تھا، جنگ کا نتیجہ وہی نکلا جو اسباب و علل کی دنیا میں نکلنا چاہیے تھا، کمزور، مختصر اور کنفیوزڈ برطانوی لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نظم سے ملنے والے بہت سے اسباق میں جنگ کی بے معنویت کا درس نمایاں ہے۔
’’ڈو اور ڈائی‘‘ جنگ کا اصول تو ہو سکتا ہے، سیاست کا نہیں۔ سیاست کی اساس ’آج نہیں تو کل‘ ہوا کرتی ہے، ’آج اور ابھی‘ نہیں۔ ’تخت یا تختہ‘ لشکری اصطلاحات ہیں، یہ سیاست کی زبان نہیں ہوا کرتی، ’’گولی کا جواب گولی سے دیں گے‘‘ یہ کسی سیاست دان کا بیان نہیں ہو سکتا۔ سیاست دان کی طاقت تو مکالمہ میں ہوتی ہے، سیاست دان کی جیت کا واحد راستہ اہنسا ہے۔یہی تاریخ کا سبق ہے۔ فائرنگ کے دوطرفہ تبادلے میں کبھی کوئی سیاست دان نہیں جیتا، سیاست تو فائرنگ بند کروانے اور ایک میز کے گرد بیٹھنے کا نام ہوا کرتا ہے ۔ہمارا عمران خان کے طرزِ سیاست پر بس یہی بنیادی اعتراض ہے۔ وہ دروازہ نہیں ڈھونڈتے، دیوار توڑنا چاہتے ہیں۔ سیاسی و اخلاقی برتری سے جیتنے کی کوشش نہیں کرتے، طاقت سے تاراج کرنا چاہتے ہیں۔ متعدد بار ناکام ہونے کے باوجود اب بھی یلغار کوہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں، بار بار وہی غلطی دہراتے ہیں، بار بار خود کو بند گلی میں پھنسا لیتے ہیں۔2014ءکے دھرنے کا اصول بھی ’ڈو اور ڈائی‘ تھا، نعرہ یہ تھا کہ ڈی چوک سے نہیں اٹھیں گے جب تک حکومت کا بھٹا نہیں بیٹھ جاتا، 35 پنکچروں کا نعرہ لگایا،اسمبلیوں سے استعفے دیے، اور وزیرِ اعظم کو گلے میں رسہ ڈال کر پی ایم ہائوس سے باہر نکالنے کو ہدفِ اعظم قرار دیا۔اس ڈو اور ڈائی میں عمران خان ناکام ہوئے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو اس سے بھی ڈو اور ڈائی کی طرح نمٹنے کی کوشش کی، عدم اعتماد کامیاب ہوا تو پھر ڈو اور ڈائی کا نعرہ لگا دیا،قومی اسمبلی سے استعفے دیے، غصے میں اسمبلیوں کو کھلونوں کی طرح توڑا، نتیجہ پھر ناکامی کی صورت میں نکلا۔آرمی چیف کی تعیناتی سے نو مئی تک، اس کہانی کے ہر باب کا عنوان ڈو اور ڈائی رہا ہے۔ان تمام ’جنگوں‘ میں عمران کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ان تمام ناکامیوں سے عمران خان نے یہ ’سبق‘ سیکھا کہ پچھلے ہفتے وہ ایک مرتبہ پھر اپنے پھیپھڑوں کی تمام تر توانائی سے چنگھاڑے ’’ڈو اور ڈائی‘‘ ۔ اور ایک دفعہ پھر ناکام ہو گئے۔ اتنے بڑے ڈیٹا کی گواہی کے بعد یہ سمجھنا آخر کتنا دشوار ہے کہ اس طرزِ سیاست کے داخل میں نامرادی نے پکے ڈیرے لگا رکھے ہیں۔
Theirs is not to reason why
غالباً ڈو اور ڈائی کا لازمی جزو ہے، لہٰذا پی ٹی آئی میں کوئی سوال نہیں کرتا کہ عمران خان کو طاقت کے استعمال سے کس طرح جیل توڑ کر فرار کروایا جائے گا، کیا ملکی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود ہے؟ کیا عمران خان پہلا سیاسی لیڈر ہے جو مقتدرہ سے لڑ کر جیل پہنچا ہے؟ ڈو اور ڈائی کے فلسفے سے آج تک کون سا لیڈر جیل سے باہر نکلا ہے؟ کوئی کودن بھی ان سوالات کے درست جواب دے سکتا ہے۔ سیاست کا کوئی ادنیٰ طالبِ علم بھی آپ کو بتا سکتا ہے کہ عمران خان کو پچھلے چند برسوں میں اپنے بل بوتے پر سب سے بڑی کام یابی آٹھ فروری کے انتخاب میں ملی تھی، اور وہ کام یابی ڈنڈا برداروں کے جتھوں کے توسط سے نہیں بلکہ ایک پُرامن سیاسی عمل کےذریعے حاصل کی گئی۔ریاستی مشینری کی مخالفت کے باوجودپی ٹی آئی کی یہ انتخابی فتح کوئی چھوٹا واقعہ نہیں تھا، اس کامیابی نے عمران خان کیلئے کئی دروازے خاموشی سے کھول دیے تھے، ہر گزرتے دن کے ساتھ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں رکھنا دشوار تر ہوتا جاتا، جب ایک مقبول رہ نما جیل میں ہوتا ہے تو بلا شبہ، زیرِ سطح ہی سہی، ملک میںبے چینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔لیکن سر پیٹنے کا مقام ہے کہ عمران خان نے اپنی سیاسی و انتخابی فتح سے یہ سبق سیکھا کہ انہوں نے ایک دفعہ پھر تواتر سے ڈو اور ڈائی کا نقارہ بجانا شروع کیا اور عملی طور پر اعلانِ جنگ کر دیا۔
ٹائیگرز کی گندگی
ہم کب سے سُن رہے تھے کہ پی ٹی آئی جس طرز کی جنگی سیاست کرنا چاہتی ہے اس کیلئے لاشیں سود مند ہوا کرتی ہیں، اور پھر لاشیں میسر آ گئیں۔ اگر کوئی ایک سیاسی کارکن بھی ریاستی گولی سے ہلاک ہوتا ہے تو یہ قابلِ صد مذمت ہے مگر اس اخلاقی برتری کو بھی پی ٹی آئی نے ’’سینکڑوں شہداء‘‘ کے لغو پروپے گنڈا سے گہنا دیا ہے۔عمران خان ہماری سیاسی تاریخ کے واحد لیڈر ہیں جو اپنی جیل کو طویل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ جس دن وہ ڈو اور ڈائی کے مائنڈ سیٹ سے باہر نکلیں گے، اُس دن وہ جیل سے بھی باہر نکل آئیں گے۔