کیا عمران کو واقعی کرپشن کے الزام پر سزا ملنے سے فرق نہیں پڑتا؟

گیٹ نمبر چار کا چوکیدار کہلانے میں فخر محسوس کرنے والے شیخ رشید احمد نے عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سزا ملنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو اس فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مطلب انہیں کوئی پروا نہیں ہے کہ انہیں ایک کرپشن  سکینڈل میں 14 سال اور ان کی بیگم کو 7 برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

 

شیخ رشید کے اس بیان پر اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کا ر رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ کسی بندے کی پیٹھ پر درخت اُگ آیا‘ لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا تو وہ ہنس کر بولا: ارے بیوقوفو! تمہیں اس درخت کی شان کا کیا علم۔ میں تو اگلے سال سے اس کی چھاؤں میں بیٹھا کروں گا۔

 

کلاسرا کے مطابق شیخ صاحب کا یہ کہنا کہ خان کو فرق نہیں پڑتا‘ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ نئی بات تو ہوتی اگر عمران اس سکینڈل اور سزا پر شرمندہ ہوتے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے۔ بیٹھ کر سوچتے کہ کیا وہ اس کام کیلئے بائیس برس تک جدوجہد کرتے رہے کہ ایک دن ان کی بیگم کسی سے ساڑھے چار سو کنال زمین‘ بیگم کی سہیلی ڈھائی سو کنال زمین یا پھر اس بندے سے 28کروڑ کیش کے علاوہ ہیرے کی انگوٹھیاں اور دیگر تحائف اپنا حق سمجھ کر لے لے؟ بہت سارے لوگ اس لوٹ مار کا دفاع کرتے ہیں تو میں ان سے اتنا پوچھ لیتا ہوں کہ کتنے لوگ اپنی بیوی کو اجازت دیں گے کہ وہ کسی سے سینکڑوں کنال زمین اور کروڑوں روپے کیش لے؟ کتنے باعزت لوگ یہ اجازت دینے کو تیار ہوں گے؟

 

سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ سوال یہ ہے کہ کوئی بزنس مین آپ کو کیوں سینکڑوں کنال زمین اور کروڑوں کا کیش دے گا؟ اگر وہ دینا بھی چاہے تو ملک کا وزیراعظم کیوں وہ زمین اور پیسہ لے گا؟ اگر آپ نے کوئی یونیورسٹی بنانی ہی ہے تو آپ ملک کے وزیراعظم ہیں‘ ایک فیصلہ کر کے فنڈز جاری کر دیں اور یونیورسٹی بنوا لیں‘ آپ کو اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا عمران خان وزیراعظم بن کر بھی وہی پرانا کام کر رہے تھے کہ امیر لوگوں سے چندہ اکٹھا کرو؟ ملک کا وزیراعظم اگر اپنے اور اپنی بیوی کے نام پر بنائے گئے ٹرسٹ پر کسی مالدار انسان سے پیسہ لے رہا ہے تو یہ یقینا ایک سکینڈل ہے۔ آپ لاکھ کہتے رہیں کہ اس میں کچھ مالی فائدہ نہیں ہوا‘ کوئی نہیں مانے گا۔کوئی شخص کیونکر تقریباً ایک ارب روپے آپ پر خرچ کرے گا؟ دنیا میں کون آپ کو مفت لنچ کراتا ہے؟ ہم امریکیوں کے اس جملے پر انہیں برا بھلا تو کہتے ہیں کہ دیکھو! کتنی خود غرض بات ہے کہ آپ نے کسی کو کچھ کھلا پلا دیا تو ساتھ اپنا مطلب بھی بیان کر دیا۔

چیف الیکشن کمشنر کو مدت ملازمت میں غیر اعلانیہ توسیع کیسے ملی؟

 

رؤف کلاسرا کہتے ہیں عجیب چیز یہ ہے کہ عمران خان کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ وزیراعظم ہو کر بھی وہ کسی بزنس مین سے کروڑوں روپے کا فائدہ لے رہے تھے۔ ان کے نزدیک یہ کوئی جرم نہیں کہ وزیراعظم کی بیوی ٹرسٹ کے نام پر کسی سے زمین یا کیش پکڑ لے یا ہیرے کی انگوٹھیاں تحفے کے طور پر لے۔ اگر آپ اس تحفے کو جائز اور اپنا حق سمجھتے ہیں تو پھر سرعام لیں‘ سب کے سامنے لیں بلکہ آپ کو شفافیت کے نام پر اس پوری ڈیل کی پریس ریلیز جاری کرنی چاہیے کہ دیکھیں ہم فلاں چیزیں‘ ہیرے‘ جواہرات‘ سونا چاندی‘ کیش اور زمین‘ سب کچھ لے رہے ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ یہ سب کچھ جائز ہے تو پھر پوری ڈیل‘ چندہ‘ زمین‘ ہیرے جواہرات اور انگوٹھیاں کیوں چھپا رہے ہیں؟ یہ خبر تو اخبار میں بریک ہوئی تو لوگوں کو پتا چلا کہ کیا واردات ڈالی گئی ہے۔

 

سینیئر صحافی کے بقول اکثر بڑے لوگوں کا خیال بلکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ کوئی بھی واردات کرتے رہیں‘ کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا۔ شریف خاندان نے 1992ء میں جو آف شور کمپنیاں یہ سوچ کر بنائی تھیں کہ ان کا کسی کو پتا نہیں چلے گا‘ وہ چوبیس سال بعد 2016ء میں سامنے آ گئیں۔ اب عمران خان اور ان کی اہلیہ بھی یہی سوچ کر ٹرسٹ بنا کر کروڑوں روپے لیے بیٹھے تھے کہ یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا۔ ہم سب کو دوسروں کے راز سامنے آتے اچھے لگتے ہیں لیکن جب اپنے راز سامنے آ جائیں تو ہم کہتے ہیں ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Back to top button