کیا غیر جانبداری کا دعویٰ کرنے والا پاکستان روس کے ساتھ کھڑا ہے؟
روس اور یوکرین کے تنازعے میں بظاہر غیر جانبدار موقف اختیار کرنے والی عمران خان حکومت مشکل میں پھنس گئی ہے اور ا
مریکہ اور یورپی ممالک کی جانب پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ ماسکو کے بعد حکومت نے روس اور یوکرین کے تنازع پر کسی بھی ملک کی سائڈ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی لیے اقوام متحدہ میں روسی جارحیت کے خلاف ووٹنگ میں بھی حصہ نہیں لیا۔ تاہم مغربی ممالک اور امریکہ کی جانب سے اسامہ آباد کے موقف کو یوکرائن مخالف اور روس نواز قرار دیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے روس اور یوکرائن دونوں کے ساتھ تجارتی مفادات ہیں۔ پاکستان جہاں یوکرائن سے دفاعی ساز و سامان خریدتا ہے تو وہیں وہ روس سے گندم اور دیگر غذائی اجناس درآمد کرتا ہے۔ روس کی جانب سے 27 فروری کو یوکرین پر چڑھائی کے بعد پاکستان کا جھکاؤ بظاہر روس کی جانب ہے لیکن اس کا اعلانیہ موقف یہی ہے کہ وہ اس جنگ میں غیرجانبدار ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ جس روز روس نے یوکرائن پر حملہ کیا اسی دن وزیراعظم عمران خان روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ماسکو میں ملاقات کر رہے تھے، تاہم پاکستان اس تنازعے میں الجھنے کی بجائے غیر جانبدار ہونے کا تاثر دینے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ایک اہم غیر نیٹو اتحادی ہوتے ہوئے بھی پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی روس مخالف قرارداد پر ووٹنگ سے گریز کیا۔ اس قرارداد میں روس کے اپنے پڑوسی ملک پر حملے کی مذمت کی گئی تھی۔
ایسا ہی 34 دیگر ممالک نے کیا، جن میں جنوبی ایشیا کے تین ممالک بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی جانب سے روس کی مذمت سے دانستہ گریز کو لے کر کے امریکہ اور یورپی ممالک پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کھلم کھلا تنقید بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے یوکرین کے حوالے سے یورپی یونین اور دیگر ممالک کے مشترکہ بیان کو سفارتی آداب کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کا بیان ناقابل قبول ہے۔
واضح رہے کہ یورپی یونین اور دوسرے ممالک کے سفیروں نے اپنے مشترکہ بیان میں پاکستان سے کہا تھا کہ وہ یوکرین کے خلاف روس کے فوجی آپریشن کی مذمت کرے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد کے مطابق پاکستان نے یورپی یونین اور دوسرے ممالک پر واضح کیا ہے کہ یوکرین کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی تشویش یورپی سفارتخانوں کو بھجوا دی ہے جبکہ سیکریٹری خارجہ نے معاملہ یورپی سفارتخانوں کے ساتھ اٹھایا ہے اور یورپی ممالک نے تسلیم کیا ہے کہ ایسی پریس ریلیز انہیں جاری نہیں کرنی چاہیے تھی۔
ترجمان نے کہا کہ ہم نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف ایسی زبان استعمال کرنا درست نہیں ہے، یورپی ممالک کے سفارتخانوں کو ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا اور یہ بیان سفارتی آداب کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل درآمد کا خواہاں ہے اور پاکستان کی خواہش ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان مسائل سفارت کاری سے حل ہوں، امید ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان مسائل مذاکرات سے حل ہوں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور یوکرین کے تاریخی تعلقات ہیں۔ پاکستان ماضی میں یوکرین سے گندم خریدنے کے ساتھ ساتھ دفاعی سازو سامان کی خریداری بھی کرتا رہا ہے۔ یوکرین 1990 کی دہائی سے پاکستان کا دفاعی شراکت دار ہے۔ پاکستان 1997 سے یوکرینی ساختہ ٹی-80 ٹینکوں کی خریداری کر رہا ہے۔ اس وقت سے اب تک پاکستان کے پاس لگ بھگ 320 یوکرینی ساختہ ٹینکس ہیں۔
مبصرین کے مطابق سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پہلے یوکرین کی ٹیکنالوجی بلاک میں سب سے بہتر تھی۔ پاکستان نے چین سے ٹینک حاصل کیے تھے، لیکن یوکرین کے بنائے ہوئے ٹینکوں میں بہترین صلاحیتیں ہیں۔ گزشتہ برس جینز نے رپورٹ کیا کہ پاکستان نے 2021 میں یوکرین کے ٹی-80 اور 320 ٹینکوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے ساڑھے کروڑ ڈالر سے زائد کا معاہدہ کیا۔ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کے مطابق ہمارے پاس الضرار اور T-80UD ٹینک ہیں۔ ہمارے پاس جدید چینی ٹینک بھی ہیں، لیکن یوکرینی ساختہ T-80UD ٹینک ہمارے اہم جنگی ٹینک ہیں۔
ہتھیاروں کے کنٹرول، اسلحہ سازی اور تخفیف اسلحہ پر نظر رکھنے والے ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یوکرین اور پاکستان کے سن 1991 سے سن 2020 تک دفاعی معاہدوں کی مالیت 1.6 بلین ڈالر بتائی گئی ہے تاہم اب پاکستان چین اور روس کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہوئے یوکرین کو لال جھنڈی دکھا دی ہے تاہم اسے یوکرین سمیت امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
Does Pakistan which claims neutrality stand with Russia? video