کیا TLP پر پابندی میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی شامل ہے؟

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر منتخب حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے بنائے جانے والے شدت پسند پریشر گروپ تحریک لبیک پر حکومت کی جانب سے پابندی لگائے جانے کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ بڑا فیصلہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منظوری سے لیا گیا۔ یاد رہے کہ ماضی میں یہ تائثر عام تھا کہ تحریک لبیک اسٹیبلشمنٹ کی بغل بچہ تنظیم ہے اور اسی کے اشاروں پر مقدس ہستیوں کا نام استعمال کرتے ہوئے منتخب حکومتوں کے خلاف دھرنے دیتی ہے۔ یاد رہے کہ نواز لیگ کی حکومت کے خلاف آخری دھرنا تحریک لبیک نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ ایک تحریری معاہدے کے بعد ختم کیا تھا۔ بعد ازاں آئی ایس آئی کی جانب سے مظاہرین میں پیسے بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ لہذا یہ سوال فطری ہے کہ آیا اس تنظیم پر پابندی کا فیصلہ حکومت نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منظوری سے لیا ہے یا نہیں؟
حکومتی ذرائع کا دعوی ہے کہ اس فیصلے میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی شامل ہے، تاہم پابندی وزارت داخلہ اور نیکٹا کی ان رپورٹس کی روشنی میں لگائی گئی جن میں بتایا گیا تھا کہ تحریک لبیک نے حکومتی رٹ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں اور بپھرے ہوئے ٹی ایل پی مظاہرین پولیس والوں کو مارنے اور گرفتار کرنے کے علاوہ ان کی جانیں بھی لے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابقادارے ن انسداد دہشت گردی کے یشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی یعنی نیکٹا کی رپورٹ میں محکمہ داخلہ کو بتایا گیا تھا کہ ٹی ایل پی کے لوگوں نے حکومتی رٹ تباہ کردی ہے اور امن امان کی صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے لہذا اس تنظیم پر پابندی عائد کی جائے اور امن و امان بحال کرنے کے لیے فوج اور رینجرز کو سڑکوں پر تعینات کر دیا جائے۔ ان حالات میں وفاقی حکومت نے فوری طور پر انسداد دہشت گردی ایکٹ، 1997 کے رول 11 (بی) کے تحت تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا۔
یاد رہے کہ ماضی میں سپریم کورٹ کا ایک بینچ تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنا کیس میں خفیہ ایجنسیوں کی شدید سرزنش کر چکا ہے لیکن اس فیصلے کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر حکومت وقت نے چیلنج کردیا تھا اور جسٹس قاضی فائز عیسی کو اپنے نشانے پر رکھ لیا تھا۔ لیکن اب صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ اگر حکومت پاکستان ٹی ایل پی کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے فرانس کے سفیر کو بے دخل کرتی ہے تو اس پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں اور پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں بھی جا سکتا ہے۔ ان حالات میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ پہلے جب تحریک لبیک دھرنا دیتی تھی تو انہیں آرڈر ہوتا تھا کہ اسے کام کرنے دیا جائے لیکن اب پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ انہیں سختی سے روکنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کپتان حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر اور اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد میں لے کر لیا۔ بتایا گیا ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو آگاہ کیا کہ نیکٹا سمیت تمام سویلین ایجنسیوں نے تحریک لبیک کو پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ ٹی ایل پی کو خطرہ قرار دیتے ہوئے نیکٹا کے علاوہ اسپیشل برانچ پولیس، انٹیلی جنس بیورو، محکمہ داخلہ پنجاب، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ امور نے اس پر فوری پابندی عائد کرنے کی سفارش کی۔ انٹیلی جنس بیورو نے اپنی سفارشات میں کہا کہ تحریک لبیک قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور یہ حکومتی رٹ کو تباہ کررہی ہے۔ تاہم آئی ایس آئی آئی کا پابندی کے حوالے سے موقف ابھی تک سامنے نہیں آسکا جسے تحریک لبیک کا بانی بھی قرار دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب وزیر داخلہ شیخ رشید نے بتایا ہے کہ اہم ترین حکومتی اداروں کی سفارشات کے بعد ہم نے ٹی ایل پی پر فوری پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے)، 1997 کے رول 11 (بی) کے تحت کالعدم قرار دیا جائے گا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ٹی ایل پی 79 ویں کالعدم جماعت ہوگی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ دراصل محکمہ داخلہ پنجاب نے ٹی ایل پی کا نام کالعدم جماعتوں میں شامل کرنے کی سفارش کی، جس کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک نے اپنا نوٹ وزارت داخلہ کو بھجوایا۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ٹی یل پی نے گزشتہ چار سال میں اپنے غیرقانونی اقدامات سے افراتفری کا ماحول پیدا کیا ہے۔ اب اس کے رہنما اور ورکرز صوبائی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ لہذا اس پر فوری طور پر پابندی عائد کی جائے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سفارش صوبائی حکومت نے وفاق کی ہدایت پر کی۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے دسمبر 2018 میں بھی تحریک لبیک نے عدالت کے حکم پر آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد ملک گیر احتجاج شروع کر دیا تھا جس کے بعد حکومت حرکت میں آئی اور مولانا خادم رضوی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تب کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا تھا کہ تھوڑ پھوڑ میں ملوث تحریکِ لبیک کے تمام رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلیں گے اور خادم حسین رضوی کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی دونوں کے مقدمات چلائے جائیں گے۔ اب کی طرح تب بھی فواد کا یہی کہنا تھا کہ قانون کے دائرے سے باہر احتجاج پر ریاست خاموش نہیں رہ سکتی اور شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ تحریکِ لبیک کے سرپرست پیر افضل حسین قادری کو گجرات میں چارج شیٹ کیا گیا ہے جب کہ خادم حسین رضوی کے خلاف لاہور کے تھانہ سول لائنز میں بغاوت اور دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ تاہم ان تمام تر حکومتی دعووں کے کچھ عرصہ بعد ایجنسیوں کی مداخلت پر مولانا خادم حسین رضوی اور ان کے ساتھیوں کو رہا کر دیا گیا تھا اور تمام مقدمات بھی واپس لے لیے گئے تھے۔ لہازا اب دیکھنا یہ یے کہ اس مرتبہ حکومت اپنے اعلانات میں سنجیدگی دکھاتی ہے یا پھر اس مذہبی شدت پسند گروہ کے ساتھ دوبارہ سے سمجھوتہ کر کے پیچھے ہٹ جاتی ہے۔