سولر انرجی کی امپورٹ کی آڑ میں ڈالر سمگلنگ شروع

ایک جانب نیشنل سولر انرجی پالیسی کے تحت حکومت ملک میں توانائی کے حصول کیلئے پیٹرول کی بجائے سولر انرجی استعمال کرنے کی مہم چلائی رہی ہے تو دوسری جانب سولر سسٹم امپورٹ کرنے کی آڑ میں ڈالر سمگلنگ کا دھندہ بھی عروج پر پہنچ گیا ہے۔ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے مطابق سولر سسٹم کی امپورٹ پر زیرو ٹیکس کیے جانے کی وجہ سے درآمد کنندگان پانچ لاکھ ڈالر کا سامان منگوانے کے لیے 10 لاکھ ڈالر کی ایل سی کھلوا رہے ہیں، پہلے ہی ملکی ڈالر کے ذخائر 10 ارب ڈالرز سے بھی نیچے آ گئے ہیں لہذا سولر انرجی کی امپورٹ پر زیرو ٹیکس کی پالیسی کو اس پہلو سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اشتعال انگیز تقریر میں سہولت کاری میں گرفتار بابر غوری رہا
اس کے علاوہ سندھ حکومت نے بھی سولر انرجی کے فروغ کے لیے ایک علیحدہ اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر یہ سب کچھ ملکی مفاد میں ہو رہا ہے تو اس کی پذیرائی کی جانی چاہئے لیکن اس منصوبے کی آڑ میں ڈالر سمگلنگ کا دھندہ روکنا بھی ضروری ہے۔ ظفر پراچہ کے مطابق اس حوالے سے حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت ہے، انکا کہنا ہے کہ سولر پلانٹس درآمد کرنے کی بجائے چین یا کسی اور ملک سے معاہدہ کیا جا سکتا ہے، جس کے تحت غیر ملکی کمپنیاں اپنے سرمائے سے پاکستان میں سولر پلانٹس لگائیں اور اگلے 10 سال تک بجلی کے بلوں کے ذریعے اپنی رقم وصول کر لیں، اس طریقے سے ڈالرز کے ذخائر بھی کم نہیں ہوں گے اور عوام کو سستی بجلی بھی مل جائے گی۔
انرجی سیکٹر سے متعلقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ چین اس طرح کے معاہدے کرنے کے لیے تیار ہے لیکن شاید حکومت کی اس میں دلچسپی نہیں ہے، کیونکہ اس سے مطلوبہ کمیشن اور کِک بیکس نہیں ملتیں، ماہر معاشیات ڈاکٹر سلیمان شاہ کے مطابق جس حکومت نے ملک میں مہنگی بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگائے اب وہی سولر پلانٹس لگا رہی ہے، انکا کہنا ہے کہ اگر 2015 میں ہی سولر انرجی کے پلانٹس لگا دیے جاتے تو پاکستان میں ڈالرز اور انرجی کے بحران پیدا نہ ہوتے، لہذا نئے سولر منصوبے لگانے سے پہلے حکومت کو اپنی پچھلی ناکامیوں کا حساب دینا بھی ضروری ہے، ناقدین کا کہنا یے کہ مسلم لیگ ن کے بجلی کے پچھلے منصوبے بھی کرپشن سے پاک نہیں تھے اور اس مرتبہ بھی سولر انرجی منصوبے سے اصل فائدہ حکمرانوں کو ہی پہنچنے کی اطلاعات ہیں جو کہ افسوسناک یے۔
اس حوالے سے وزرات توانائی نے بتایا کہ پاکستان میں سولر انرجی پر کام کر کے اگلے سال تک تقریباً 10 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور چین بھی اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔
یاد رہے کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی توانائی کی ضروریات کا بڑا حصہ سولر انرجی پر منتقل کر چکے ہیں، چین سولر انرجی سے131 گیگا واٹ بجلی پیدا کر کے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، امریکہ 51 گیگا واٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، اسی طرح جاپان 49.2 گیگا واٹ بجلی بنا رہا ہے، جرمنی 42، اٹلی 19، بھارت 18، برطانیہ 12، فرانس آٹھ، آسٹریلیا سات اور سپین 5.6 گیگا واٹ انرجی سولر سسٹم سے حاصل کر رہا ہے۔
دوسری جانب حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سولر پلانٹس سے انرجی حاصل کرنے کے پہلے مرحلے میں دو ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی، سندھ حکومت پانی پر پانچ سو میگا واٹ کپیسٹی کا سولر پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے، یہ منصوبہ بھی بنایا گیا ہے کہ آہستہ آہستہ سرکاری عمارتوں کو سولر پلانٹس پر منتقل کر دیا جائے۔ وزیراعظم ہاوس کو بھی جلد از جلد سولر انرجی پر منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی یے۔ اسی طرح پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کو بھی سولر انرجی پر منتقل کیا جا رہا ہے جس سے کروڑوں روپوں کا فائدہ ہو گا۔ تاہم سرکار کے دعوے درست ہیں یا نہیں، اس بارے میں واضح طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
لیکن سولر انرجی منصوبوں سے جڑے منفی پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ڈالر کی سمگلنگ، رشوت میں اضافہ، درآمدات میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور گرتے ہوئے ڈالر ذخائر ایسے مسائل ہیں جو نیشنل سولر انرجی پالیسی کے اعلان کے بعد بڑھ سکتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو سولر بجلی انقلاب لانے کی بجائے پاکستان کو ایک نئے مالی بحران کا شکار کر سکتی یے۔