مریم کو دوبارہ بلایا جائے یا نہیں؟ نیب کشمکش کا شکار


نیب لاہور آفس کے باہر پولیس اور نون لیگ کے کارکنان میں ہونے والے پر تشدد مقابلے کو پانچ ہفتے گزر جانے کے باوجود قومی احتساب بیورو کے کرتا دھرتا اب تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ مریم نواز شریف کو اس کیس میں دوبارہ سمن جاری کیے جائیں یا نہیں. 11 اگست کے روز مریم نواز شریف کو نیب کے لاہور آفس میں طلب کیے جانے پر جو شدید ہنگامہ آرائی اور ردعمل دیکھنے میں آیا اس کے بعد سے نیب کے اعلیٰ افسران اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ اب مریم کو دوبارہ پیشی کے لیے بلایا جائے یا نہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی نیب کے مریم کو بلاوے نے ملکی سیاست اور خود ن لیگ میں ان قوتوں کو مضبوط کیا ہے جنہیں وہ کمزور کرنا چاہتے تھے۔ 11 اگست کو نیب لاہور کے دفتر کے سامنے مریم نواز کی پیشی کے موقع ہر ن لیگ کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپ نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست اور ریاست کی دیرینہ دراڑوں اور موجودہ سیاسی بساط کی پیدائشی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ مریم نواز تو نواز شریف کی برطانیہ روانگی کے بعد سے مکمل خاموش تھیں۔ ن لیگ، شہباز شریف اور ان کے قریبی رفقا کی قیادت میں سیاست کر رہے تھے۔ نیب کے بلاوے آ تے تھے اور ن لیگی رہنما خاموشی سے پیش ہو جاتے تھے۔ میڈیا میں مریم نواز کی خاموشی پر تبصرے ہوتے لیکن وہ خاموش رہتیں۔
لیکن یہ خاموشی اس وقت ٹوٹی جب عدلیہ اور حزب اختلاف کی شدید تنقید اور دباؤ میں آ کر نیب نے جہاں حکومت اور حزب اختلاف کے کئی لوگوں کی پکڑ دھکڑ کرنے کی کوشش کی وہاں انہوں نے ایک پتھر مریم نواز کی طرف بھی پھینک دیا۔ مریم کے نام بلاوے کے نوٹس کو پڑھیں تو نہ اس کا سر ہے اور نہ پیر۔ نہ کوئی الزام ہے اور نہ کوئی سنجیدہ سوال۔ مریم سے معلومات وہ مانگی گئی ہیں جو پہلے ہی سرکاری ریکارڈ میں موجود ہیں۔ بظاہر اس کا مقصد مریم پر دباؤ برقرار رکھنا اور نیب کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ میں پیوندکاری کرنا تھا۔
مریم کیمپ کے ایک رہنما کے مطابق ’ہم پہلے ہی خاموش تھے۔ ہم نے اپنی پارٹی کے مصالحتی ونگ سے کہا کہ ہم خاموش ہیں جو فائدہ حاصل کرنا ہے کر لو۔ حکومت کو بھی کھلی چھوٹ دی ہوئی تھی کہ آپ نے جو چن چڑھانا ہے چڑھا لو، بس ہمارے متھے نہ لگو۔ ایسے میں یہ نوٹس ایک کھلی اشتعال انگیزی اور سرخ لکیر کو پار کرنے والی بات تھی۔ ہمارے لوگ پہلے ہی ہم پر تپے بیٹھے تھے۔ اس اشتعال انگیزی پر ہماری طرف سے خاموشی ممکن نہ تھی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔‘ نیب کا نوٹس ملنے کے فوراً بعد مریم نواز شریف نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ پیش ہوں گی۔ ساتھ ہی ان کے کارکنوں نے بھی تیاری شروع کردی۔ جب نیب کو پتہ چلا کہ یہ معاملہ ن لیگ کے دوسرے رہنماؤں سے مختلف ہو گا تو انہوں نے مختلف حلقوں سے پیغامات بھجوانے شروع کر دیے کہ آپ تشریف نہ لائیں ہم اسے نمٹا لیں گے۔ مریم کو شک تھا کہ نیب ان کی طرف سے پیش نہ ہونے کو ان کی کمزوری کے طور پرپیش کرے گی اور تحریک انصاف بھی اسے مریم نواز کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرے گی اس لیے انہوں نے جوابی پیغام بھجوایا کہ وہ صرف اس صورت میں پیش نہیں ہونگی اگر نیب تحریری طور نوٹس سے دستبردار ہو جائے۔ نوٹس منسوخ کرنے سے نیب کی رہی سہی ساکھ بھی جاتی رہتی اور آئندہ وہ کسی اور کو طلب کرنے کے قابل نہ رہتی اس لیے انہوں نے آخری وقت تک مریم نواز کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ نیب دفتر نہ آئے۔ اس کے بعد شہباز شریف کے ذریعے بھی مریم کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ وہ اپنے وکیل کو بھجوا دیں، ان کے آنے کی ضرورت نہیں۔ تاہم مریم نواز نہ مانیں۔
اسکے بعد 11 اگست کی صبح نیب لاہور دفتر کے سامنے جو کچھ بھی ہوا اس نے نیب اور نیب کی اعانت کرنے والوں خصوصاً پی ٹی آئی سرکار کو زخمی کر دیا ہے۔ ن لیگی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ، گرفتاریاں، رہائی، مریم نواز اور ان کے کارکنوں پر پولیس کی طرف سے پتھراؤ اور خاص طور پر مریم نواز کی گاڑی کو پہنچنے والے نقصان کے نتائج ن لیگ کی اندرونی سیاست اور ملکی سیاست میں در رس نکلیں گے۔ واقعے کے بعد مریم نے ایک زوردار پریس کانفرنس میں ایک بار پھر اپنے والد کے ’ووٹ کو عزت دو‘ والے پرانے بیانیے کا اعادہ کیا ہے اور اپنے والد کی طرف سے حزب اختلاف کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور اجتماعی فیصلہ سازی پر زور دیا ہے۔
11 اگست کے واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ نواز شریف کے بعد ن لیگ کی مسقبل کی قیادت کس کے پاس ہو گی۔ قطع نظر اس کے کہ مریم نواز ڈیڑھ درجن نائب صدور میں سے ایک ہیں، پارلیمان سے وہ باہر ہیں لیکن سیاست وقت پر پیش رفت کرنے اور بہادری دکھانے کا نام ہے۔ اس کا تعلق عہدوں اور عمر سے نہیں ہے۔ اب انصافی سرکار اپنے تیسرے سال میں داخل ہو چکی یے۔ پنجاب کے معاملات ابھی تک بڑی کامیابی تو درکنار معمولی سیاسی استحکام سے بھی دور ہیں۔ حکومت کے بڑے اتحادی جوگر پہن کر دوڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اور صرف سبز جھنڈی کا انتظار کر رہے ہیں۔ عثمان بزدار کے حالیہ سکینڈل نے، جس کے لیے نیب نے انہیں طلب کیا تھا، نظام کی ناپائیداری کی قلعی کھول کر رکھ دی یے۔ اب حالات یہ ہیں کہ نیب مریم نواز کی بجائے عثمان بزدار کے شراب لائسنس کیس پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ نہیں معلوم کہ نیب کا اگلا قدم کیا ہو گا لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر نیب نے، جس کے چیئرمین کی مدتِ ملازمت میں صرف پونے دو ماہ باقی رہ گئے ہیں، دوبارہ مریم نواز کے خلاف کوئی الٹا سیدھا قدم اٹھایا تو اس کا رد عمل 11 اگست سے بھی زیادہ سخت ہو گا لیکن اگر نیب نے یہ معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا تو مریم نواز بھی نسبتاً خاموشی اختیار کر لیں گی اور عمران سرکار کو اپنے اقتدار کی طوالت کی رسی میں جھولتا دیکھنے کی پالیسی پر عمل کریں گی۔ جاتی عمرہ سے فی الحال پیغام یہی ہے کہ ’نہ چھیڑ ملنگاں نوں!‘
تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ نیب کے اعلیٰ حکام مریم نواز کو دوبارہ بلانے کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button