مذاکرات ہو بھی جائیں تو عمران خان کی رہائی ممکن کیوں نہیں؟

عمران خان کے سابقہ بہنوئی اور معروف تجزیہ کار حفیظ اللہ خان نیازی نے کہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے 9 مئی کے واقعات کی تفتیش کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ دراصل فوجی قیادت سے معافی مانگنے کا ایک بہانہ ہے۔ اپنی تازہ تحریر میں حفیظ نیازی کہتے ہیں کہ میری ذاتی رائے میں عمران خان اب سٹیج پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ اپنی جان چھڑوانے کے لیے فوج سے معافی مانگنے پر پر تیار ہو چکے ہیں، لیکن سچ یہ یے کہ اب وہ معافی مانگ بھی لیں تو انکی رہائی ممکن نہیں ہے۔ اب تو عمران خان کو کورٹ مارشل کا شکار ہونے والے فیض حمید کے خلاف فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے جس کے بعد ان کا بھی نمبر لگنے والا ہے۔

 

حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ 24 نومبر کے لانگ مارچ کی شاندار ناکامی کے بعد عمران خان نے آخری پتہ کھیلنے کی ٹھانی اور 15 دسمبر سے سول نافرمانی مہم چلانے کا اعلان کر دیا۔ موصوف نے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو ترسیلات زر نہ بھجوانے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ عمران نے پاکستانی معیشت پر ڈرون حملہ کرنے کی کوشش کی ہو۔ 14 اگست 2014ء کا ڈی چوک دھرنا ہو یا 2024 میں سربراہی کانفرنس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش ہو، عمران خان کو ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ انہوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے درجنوں لانگ مارچ، دھرنے اور ریلیاں ترتیب دیں ۔ انہوں نے عوام کو فوج کے خلاف مہم جوئی شروع کرنے سے پہلے گرمانے، اُکسانے، اور بھڑکانے کیلئے درجنوں جلسے کر ڈالے، لیخن خان کی ایک مہم بتائیں جہاں ناکامی نے ان کا منہ نہ چڑایا ہو۔

 

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ 24 نومبر کے لانگ مارچ اورڈی  چوک پر چڑھائی کا اعلامیہ جاری ہوا تو میں تکرار کیساتھ ایک بات کہتا رہا کہ 24 نومبر کا احتجاج ناکام ہو کر رہے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ 24 نومبر کا احتجاج عمران خان کی بڑھتی فرسٹریشن اور تحریک انصاف کے  رہنماؤں پر بداعتمادی کا نتیجہ تھا‘‘۔ اور یوں خواہ مخواہ فرسٹریشن میں عمران خان کو ایک اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جو کہ ان کی فائنل کال تھی۔ عمران خان کی فائنل ناکام کال لیڈران کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست ورکرز کیلئے تھی چنانچہ اس کی قیادت بشریٰ بی بی کو سونپی گئی۔ لیکن پاکستان کی خوش قسمتی کہ نہ صرف فائنل احتجاج کی کال ناکام رہی بلکہ اس کے بعد 278 شہادتوں کا جو جھوٹا بیانیہ ترتیب گیا گیا تھا وہ بھی بے نقاب ہو گیا۔

عمران اپنے مخالفین کے لیے کھودے گئے گڑھے میں خود کیسے گر گئے؟

 

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ عجیب بات یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی فائنل کال ناکام ہونے کے باوجود سول نافرمانی کی تحریک کی کال دے ڈالی۔ لیکن جب ان کی اپنی جماعت کے اندر سے اس قول کی مخالفت ہونا شروع ہوئی تو موصوف وقتی طور پر پیچھے ہٹ گئے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر عمران سول نافرمانی تحریک کی دوبارہ کال دیتے ہیں تو وہ بھی ان کی ماضی کی کالز کی طرح مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہوگی۔ وجہ یہ نہیں کہ عوام ان کا اصلی روپ دیکھ چکے ہیں۔ نیری رائے میں ان کا آخری پتہ بھی گیدڑ بھبکی ہی رہنی ہے جبکہ حکومت عمران کی اس کیفیت کو انجوائے کرے گی۔

 

حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود عمران خان کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنی کسی بھی ناکامی پر اپنے فالوورز کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ ابہوں نے ہر بار اپنے فالورز کی انکھوں پر پٹیاں باندھ کر انہیں ایک نئے مستقبل کے سنہرے سپنے دکھا ڈالے۔ انکے ماننے والے بھی سوشل میڈیا پر انکے ہر نئے بیانیہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ یے، عمران خان اہنے ساتھیوں کو طفل تسلی دیتے دیتے ہوئے خود ہی اپنی طفل تسلی کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

 

حفیظ اللہ خان نیازی کہتے ہیں کہ میں بار بار وارننگز اور دھمکیاں دینے والے عمران خان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ماضی میں بھی یہ سب کچھ کر کے حکومت کا کیا اکھاڑ لیا ہے۔ نجانے عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا الٹی میٹم کس زعم میں دیا جو حکومت کے نزدیک گیدڑ بھبکی سے زیادہ کچھ نہیں۔ عمران کی جانب سے اقتدار سے علیحدگی کے بعد سے بلواسطہ، بلاواسطہ، کھلے عام، پس پردہ، درجنوں دفعہ مذاکرات کیلئے جتن کیے گے لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔

 

میرے نزدیک تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکرات کئی ہفتوں سے جاری ہیں لیکن ان کے نتیجے میں عمران خان کی رہائی ممکن نہیں۔ حکومت تو پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ اگر مذاکرات ہوں گے بھی تو این آر او پر کوئی گفتگو نہیں ہوگی۔ البتہ اس دفعہ کے دو مطالبات میں ایک دلچسپ پہلو 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا ہے۔ دراصل عمران خان 9 مئی پر معافی مانگنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ میرے حساب میں عمران خان ٹوٹ چکا ہے اور اب ہر حال میں اپنی رہائی کا متمنی و متلاشی ہے۔ اس تناظر میں دونوں فریقین کے مابین مذاکرات ہونا یقینی ہے لیکن ان کے نتیجے میں عمران کی رہائی ناممکن ہی رہے گی۔

Back to top button