وزیراعظم بننے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی شہباز شریف سے توقعات
لوگ آج بھی شہباز شریف کا نام لیتے ہوئے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب کہہ جاتے ہیں کیونکہ برسوں سے شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر ہی خدمات انجام دیتے رہے ہیں، ان کو وزیراعلیٰ دیکھنے والے بچے آج خود والدین بن گئے ہیں۔
شہباز شریف کو وزارت اعظمیٰ تک پہنچانے میں دیگر باتوں کے علاوہ ان کے بڑے بھائی نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور پھر عمران خان کی عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے بے دخلی نے بھی کردار ادا کیا ہے، شہباز شریف کے وزیرِاعظم بننے کے بعد سوشل میڈیا پر کوئی ان سے فرمائشں کر رہا ہے تو کوئی عمران خان کو یاد کر رہا ہے۔
بانو نامی صارف نے لکھا کہ شہباز شریف، اب جبکہ آپ ہمارے نئے وزیرِ اعظم بن چکے ہیں تو یہ ضروری کام کریں، کراچی کا انفراسٹرکچر ٹھیک کریں، کراچی کو محفوظ بنائیں، اور پاکستان میں کام کے اوقات چھ گھنٹے کر کے صرف پیر سے جمعرات تک کر دیں، خوشحال خان نامی صارف نے لکھا کہ ایسا وزیرِاعظم جسے معلوم ہے کہ جرمنی اور جاپان کی سرحدیں نہیں ملتیں۔
اُن کا اشارہ عمران خان کے اس بیان کی جانب تھا جو سابق وزیراعظم نے 2019 میں دورہ ایران کے دوران دیا تھا، اور کہا کہ جرمنی اور جاپان نے لاکھوں شہریوں کو ہلاک کیا پھر دوسری جنگِ عظیم کے بعد فیصلہ کیا کہ جاپان اور جرمنی کی سرحد پر مل کر صنعتیں لگائیں اور اس کے بعد سے ان کے درمیان خراب تعلقات کا کوئی سوال ہی نہیں کیونکہ ان کے اقتصادی مفادات ایک ہیں۔
ماہ نور شیخ نے لکھا کہ وزیراعظم کی تقریر میں چور، ڈاکو، این آر او، کرپشن، میں، مجھے، کرکٹ اور مغرب کے الفاظ نہ سن کر اتنا عجیب لگ رہا ہے، مزاح سے کچھ ہٹ کر بات کریں تو صحافی سلمان مسعود نے ان چیلنجز کا ذکر کیا جو شہباز شریف کے سامنے ہیں۔
سلمان مسعود نے لکھا کہ جشن مختصر ہی ہوگا، اُنھیں جمود کی شکار معیشت کو بحال کرنا ہے، انتخابی اصلاحات متعارف کروانی ہیں، گورننس بہتر بنانی ہے اور خراب سفارتی تعلقات کو ٹھیک کرنا ہوگا اور وقت شروع ہوتا ہے اب معیشت تو معیشت مگر کیا اس کا اثر کرکٹ پر بھی پڑے گا؟ سپورٹس صحافی فیضان لاکھانی تو ایسا ہی سمجھتے ہیں، اس تبدیلی کا اثر بلاشبہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں اقتدار کی راہداریوں پر بھی پڑے گا۔
اینکر پرسن جیسمین منظور نے لکھا کہ پاکستان میں ٹرینڈز سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا، نئی حکومت کے لیے لوگوں کو متحد کرنا بہت مشکل ہوگا اور اس کا واحد طریقہ کارکردگی دکھانا ہے، کیا اتحادی جماعتیں شہباز شریف کو ایسا کرنے دیں گی؟ نظریں ان پر ہیں، دوسروں پر نہیں۔
کئی مظاہرینِ اقتصادیات کا یہ موقف رہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں ہونے اور ملکی خزانے کی دگرگوں صورتحال کے باعث سابقہ حکومت کو جاتے جاتے پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔
شہبازشریف کے ذمہ داریاں سنبھالنے پرامریکی بیان کا خیرمقدم
علی خضر نے لکھا کہ شہباز شریف نے اپنی اننگز عوامیت پسندی سے شروع کی ہے جس میں سرکاری افسران کی تنخواہوں اور پینشنز اور کم سے کم اجرت میں اضافہ کیا، سستا بازار منعقد کرنے کا اعلان کیا، یہ سب کریں مگر خدارا پیٹرول کی قیمتیں نہ بڑھائیں۔