رات گئے عدالت کو کھولنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ‌ کی وضاحت

9 اپریل کے روز رات گئے عدالت کھولنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے وضاحت جاری کر دی گئی ہے جس میں‌ بتایا گیا ہے کہ عدالت کو خدشہ تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان آرمی چیف کو ڈی نوٹیفائی نہ کر دیں اور اسی سلسلے میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی تھی جس کے لیے عدالت کو کھولنا ضروری ہو گیا تھا۔

دریں اثنا اس رات اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ عدالت عمران خان کو جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے سے روکے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک اور درخواست میں عدالت سے آئینی بحران کو ٹالنے اور سپریم کورٹ کے 7 اپریل کے حکم پر عمل درآمد کروانی کی استدعا کی گئی تھی۔

عدالت نے پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ 9 اپریل 2022 کو رات گئے پٹیشنز کی فائلنگ کو غلط رپورٹ کیا گیا ہے اور سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیا طے شدہ عدالتی اوقات کے بعد درخواستیں پیش کی جا سکتی ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 نومبر 2019 اور 10 فروری 2021 کو جاری کیے گئے دو سرکلرز کا حوالہ دیا جس میں ’عدالتی وقت کے بعد درخواستوں کو پیش کرنے کا طریقہ‘ بتایا گیا تھا۔

ان سرکلرز کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ نے مطلع کیا تھا کہ کسی شہری کی جان یا آزادی یا کسی اور اہم معاملے کو لاحق خطرے کی صورت میں رجسٹرار آفس درخواست وصول کر سکتا ہے اور عدالتی اوقات کار کے بعد بھی اسے چیف جسٹس تک پہنچا سکتا ہے۔

وزیراعلیٰ کا انتخاب، لاہور ہائیکورٹ کا معاملہ آج ہی حل کرنے کا حکم

بیان میں کہا گیا کہ ایک آئینی عدالت کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ انتہائی ہنگامی نوعیت اور اہمیت کے حامل مقدمات کو طے شدہ اوقات کے بعد بھی کسی بھی وقت پیش کیا جائے اور معزز چیف جسٹس اگر سمجھتے ہوں کہ معاملہ انتہائی ہنگامی نوعیت کا ہے، تو وہ کسی بھی وقت کیس لگانے کا حکم دے سکتے ہیں

۔عدالت نے کہا کہ لہٰذا واضح ہوا کہ مذکورہ بالا سرکلرز کی روشنی میں انتہائی ہنگامی نوعیت سے متعلق ایک درخواست عدالت کے طے شدہ اوقات کے بعد کسی بھی وقت پیش کی جا سکتی تھی اور اگر چیف جسٹس مطمئن تھے کہ ایسے حالات موجود ہیں تو درخواست کو سماعت کے لیے بھی مقرر کیا جا سکتا تھا۔

Back to top button