ناکام احتجاج : پی ٹی آئی میں اختلافات شدت اختیار کرگئے

پی ٹی آئی کے حالیہ اسلام آباد احتجاج کی ناکامی کے بعد پارٹی میں اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں۔

اندرونی ذرائع کےمطابق سینئر رہنماؤں کے درمیان ناقص منصوبہ بندی اور مظاہرے کی غیرمؤثر حکمت عملی پر الزامات کا تبادلہ جاری ہے۔

پارٹی رہنما بشریٰ بی بی کو ناکامی کا ذمہ دار قرار دے رہےہیں جنہوں نے ڈی چوک جانےپر اصرار کیا۔

پارٹی ذرائع کاکہنا ہےکہ اسلام آباد احتجاج، جس کا مقصد عمران خان کی رہائی اور حکومت پر دباؤ ڈالناتھا لیکن پارٹی اپنے اہداف حاصل کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہی۔اس ناکامی نے پارٹی کےمختلف دھڑوں میں اختلافات کو جنم دیا ہے۔

کچھ سینئر رہنماؤں نےمرکزی قیادت پر حکمت عملی میں کمی کا الزام لگایاہے۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے پارٹی میں اختلافات کے الزامات کو مسترد کرتےہوئے کہا کہ احتجاج کامیاب رہا،

جسے انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا مارچ قراردیا،حالانکہ اس میں کئی مشکلات اور طاقت کے استعمال کا سامنا کرناپڑا۔

انہوں نے کہاکہ ان تمام چیلنجز کےباوجود پی ٹی آئی کے کارکنان ڈی چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، تاہم حکومت کی طرف سے براہ راست فائرنگ اور اس کےنتیجے میں ہونے والی اموات قطعی ناقابل قبول تھیں۔

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر پی ٹی آئی خونریزی کی حمایت نہیں کرتی۔

انہوں نے کہاکہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے غیرقانونی اور جابرانہ رویے کے خلاف قانونی کارروائی کی جائےگی۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پارٹی کے حقوق اور مطالبات کےلیے جدوجہد جاری رکھے گی کیونکہ یہ پی ٹی آئی کے بنیادی نظریے کےمطابق ہے۔

مشیر اطلاعات خیبرپختونخو بیرسٹر محمد علی سیف پہلے ہی انکشاف کرچکے ہیں کہ عمران خان سنگجانی میں جلسے پر راضی تھے لیکن بشریٰ بی بی نے اختلاف کیا جس کےباعث پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا۔

پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی بھی پھٹ پڑے۔انہوں نے کہاکہ علی امین گنڈاپور کو قربانی کا بکرا بنایاگیا، عمران خان نے سنگجانی میں جلسے پر رضامندی ظاہر کی لیکن بشریٰ بی بی نے ڈی چوک جانے کی ضد کی جس کی پارٹی کو بھاری قیمت چکانا پڑی ۔

شوکت یوسفزئی نےکہاکہ پارٹی بشریٰ بی بی چلائیں گی یا لیڈر شپ چلائےگی؟ پارٹی لیڈر شپ کےپاس اتنا اختیار نہیں تو استعفیٰ دےدینا چاہیے۔

بشری بی بی یوتھیوں کو تنہا چھوڑ کر کیسے بھاگیں؟ ویڈیو سامنے آ گئی

ان کاکہنا تھا کہ ڈی چوک واقعے پر بہت افسوس ہوا،پی ٹی آئی پنجاب کی لیڈر شپ کہاں غائب تھی۔ ان کاکہنا تھا کہ ہم ڈی چوک میں بیٹھ بھی جاتےتو ہمارے پاس کوئی پلان نہیں تھا،پشاور سے روانہ ہونے سے پہلےمشاورتی کمیٹی کیوں نہیں بنائی گئی؟ بدقسمتی سے جو پارٹی کو لیڈ کررہے ہیں،جلوس کو لیڈکرنے نہیں آئے۔ علی امین گنڈاپور نےپارٹی اور ورکر کا پریشر برداشت کیا،پارٹی کو سوچنا چاہیے جو اصل چہرے ہیں وہ پیچھے کیوں دھکیلےگئے؟

انہوں نےکہا کہ حکومت کےساتھ مذاکرات ہوسکتے تھے کس نے انکار کیا؟ حکومت کو اتنا ظلم اور بربریت نہیں کرنی چاہیےتھی۔

Back to top button