فیصل واوڈا نے اگلے سیٹ اپ میں اہم عہدہ لینے کی تیاریاں تیز کر دیں
سیاسی منظرنامے میں اتحاد بنانے کے لیے جوڑ توڑ کی سیاست کرنے والے ایک نئے شخص کی انٹری ہوئی ہے اور وہ ہیں سینیٹر فیصل واوڈا جو عمران خان سے علیحدہ ہونے کے بعد کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں بلکہ آزاد حیثیت میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ وہ کسی جماعت سے منسلک نہیں لیکن ان کی سیاسی پیش گوئیوں کو سب انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ انکی گفتگو سے اکثر گمان ہوتا ہے کہ وہ بھائی لوگوں کی جانب سے ایک مخصوص مشن پر مامور ہیں اور اسی لیے انکی جانب سے کی جانے والی پیش گوئیوں کو کافی وزن دیا جاتا ہے۔
فیصل واوڈا آجکل اکثر ٹی وی ٹاک شو میں نظر آتے ہیں جہاں وہ اپنا تجزیہ پیش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ ان کے مقابل بیٹھے افراد بھی انہیں انتہائی غور سے سنتے ہیں۔ اس سے قبل ان کا شمار عمران کے ذاتی دوستوں اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ کراچی میں دہشت گرد حملہ ہو یا پاکستان کا آزاد کشمیر میں بھارتی طیارہ مار گرانا، فیصل واوڈا کمانڈو جیکٹ پہن کر موقع پر اپنی پسٹل تھامے پہنچے اور ایسی حرکتوں سے کافی شہرت حاصل کی۔
فیصل واوڈا اب بھی اپنی سابق جماعت تحریک انصاف سے متعلق منفی تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ عمران خان کی زندگی کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار بھی کرتے ہیں جبکہ فیض حمید کے ٹرائل کی تاریخوں پر بھی لب کشائی کرتے ہیں۔ وہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے بھی بے باک تجزیہ دیتے ہیں کہ کیسے وفاق اور پنجاب میں حکومتیں حاصل کر لینے کے بعد اسکا سیاسی اثر و رسوخ کم ہورہا ہے۔ فیصل واوڈا کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ مرکزی قیادت بشمول نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کا عوام سے قطع تعلق کرنا ہے۔
2018 کے انتخابات سے پہلے فیصل واوڈا نے پیش گوئی کی تھی کہ پی ٹی آئی کے پاس الیکشن میں حصہ لینے کے لیے بھی امیدوار نہیں ہوں گے، لیکن اب وہ پارٹی کو اس کا مینڈیٹ واپس دلوانے کے لیے فکر کا اظہار کرتے ہیں جو کہ عجیب ہے۔
فیصل واواڈا سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو سیاسی اتحاد بنائے اور ملک کے سیاسی مسائل حل کر سکے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ یہ کردار ادا کر سکتے ہیں چونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ ہیں۔ تاہم یہ کام موجودہ سیاسی حالات میں کافی مشکل لگتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ پرانے دور میں وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اقتدار میں نہیں ہوتی تھیں چاہتی تھیں کہ انہیں اقتدار مل جائے۔ لیکن موجودہ دور میں تمام بڑی جماعتیں بشمول پی پی پی اور نون لیگ پہلے سے ہی اقتدار میں ہیں۔ واحد اپوزیشن جماعت تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا شکار ہے اور فیصل واوڈا نے بھی اسی لیے عمران خان سے علیحدگی اختیار کی تھی۔
برطانیہ میں احتجاج کرنے والے یوتھیے بھی مایوس ہونے لگے
فیصل واوڈا کے خیال میں موجودہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی اور مرکز میں ایک قومی عبوری حکومت وجود میں آسکتی ہے جس میں انہیں کوئی اہم کردار مل سکتا ہے۔ ایسی افواہیں بھی چل رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے بجائے پی پی پی کی قیادت میں نئی حکومت بنائی جائے گی۔ یعنی ایک ہی کہانی کو بار بار دہرایا جا رہا ہے اور دہرایا جاتا رہے گا۔
سینیٹر فیصل واوڈا پرائیویٹ محفلوں میں یہ دلائل دیتے نظر آتے ہیں کہ حکومت اسلیے تبدیل ہوگی کہ مسلم لیگ (ن) کا اثر و رسوخ ختم ہورہا ہے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ شاید معیشت ہے جس کے لیے کمیٹیز اور ٹاسک فورسز بنائی جارہی ہیں لیکن حقیقی فیصلے نہیں کیے جارہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) عمران خان کی عوامی حمایت اور مقبولیت کم کرنے کی کوششوں میں بھی ناکام نظر آتی ہے جس سے اسکے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ چنانچہ فیصل واوڈا کی یہ کوشش ہے کہ وہ کسی طرح موجودہ حکومت کے خاتمے اور مجوزہ قومی عبوری حکومت کے قیام سے پہلے خود کو ایسی پوزیشن میں لے آئیں کہ انہیں کوئی اگلتے سیٹ اپ میں کوئی اہم کردار مل جائے۔