سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی

تحریر:وجاہت مسعود، بشکریہ : روزنامہ جنگ

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ اظہاریے میں انتخابات کے 2022 میں قبل از وقت مطالبے سے متعلقہ نکتے کا جواب ہی مشکل سے نمٹ سکا کہ کالم کی سانسیں چھوٹ گئیں۔ بے شمار سخن ہائے گفتنی ابھی باقی تھے۔ اس سے پہلے مگر اک رسم ملاقات پوری کر لیں۔ اپنے عنایت نامے میں محترم حبیب اکرم نے ’قلم کی کاٹ‘ کا ذکر بھی کیا۔ برادرم ایسی قلم نویسی کا کسی اور کو دعویٰ ہو تو ہو، اس درویش کو ہرگز نہیں۔ ہم تو دشمن کے لئے بھی دست صبا کی دعا کرتے ہیں، آپ تو حبیب عنبر دست ہیں۔ ہمارے مسلک میں قلم محبت، انصاف اور امن کے لئے لفظ تراشنے کا آلہ ہے، اسے نشتر زنی کا ہتھیار بنانا جائز نہیں۔

برادر عزیز کا خیال ہے کہ میں نے 2018 کے الیکشن کو جعلی قرار دیا۔ بجا فرمایا۔ درویش تاریخ کا طالب علم ہے۔ 1970 سے آج تک اس ملک میں گیارہ قومی انتخابات ہوئے ہیں اور میں ان میں سے ہر انتخاب کو جعل سازی، فریب اور مداخلت کاری کی مشق سمجھتا ہوں۔ جمہور مخالف دھارے نے کبھی عوام کا حق حکمرانی تسلیم ہی نہیں کیا۔ قوم کے خلاف اس جرم کی جڑیں 1970 سے بہت پیچھے جاتی ہیں۔ آپ نے دستور کی شق 225 کا حوالہ دے کر معصومیت سے فرمایا ہے کہ جسے 2018 میں انتخابی دھاندلی کی شکایت تھی، اسے الیکشن ٹریبونل سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ میرے بھائی، 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار الیکشن ٹریبونل کے ’دائرہ اختیار‘ اورجائے وقوع سے خوب واقف تھے۔ اسی لئے سیالکوٹ کے خواجہ آصف نے 25 جولائی 2018 ء کی رات فوج کے سربراہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے فون پر استدعا کی تھی کہ ان کے انتخابی حلقے کے نتائج کا اعلان کیا جائے۔ الیکشن ٹریبونل کی اچھی کہی۔ احمد مشتاق کا شعر تو آپ نے پڑھ رکھا ہو گا، ’اس معرکے میں عشق بچارا کرے گا کیا / خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ‘ ۔ تب عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار تھے اور ان کی انصاف پروری کا احوال علی سردار جعفری نے بیان کر رکھا ہے۔ ’تیغ منصف ہو جہاں، دار و رسن ہوں شاہد / بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا‘۔ 2018 ء کے انتخابات میں اپریل 2014 کے لندن پلان، 126 روزہ دھرنے کی آبیاری، محکمہ زراعت کی کاشت کاری، آر ٹی ایس کی خشک سالی اور جہانگیر ترین کی بلند پروازی کی تفصیل آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2011 کے میمو گیٹ اسکینڈل کا دفتر عدالت عظمیٰ نے کئی برس بعد خاموشی سے لپیٹ دیا تھا۔ 2016 کے ڈان لیکس کی حقیقت تو اب آرکسٹرا کے چیف کنڈکٹر نے خود تسلیم کر لی ہے۔ ان مقامی دستکاریوں کا مقصد یکے بعد دیگرے دو منتخب حکومتوں کو بے دست و پا کرنا تھا ۔ کوئی دن جاتا ہے کہ پانامہ اور اقامہ کا جامہ بھی بے نقاب ہو کر سورج کو شرمائے گا۔

آپ کو اعتراض ہے کہ درویش نے عمران خان پر ’بگولوں کے تعاقب‘ کا الزام لگایا ہے۔ دیکھیے، ہمیں محترم عمران خان سے کیا لینا دینا۔ وہ پون صدی پر پھیلی اس comédie noire (تمثیل تاریک) کا ایک ذیلی کردار ہیں۔He is no prince Hamlet, just an attendant lord ۔ آئیے، درویش آپ کا بگولوں سے تعارف کروا دے۔ یہ بگولے آزادی اور تقسیم کی نیم شب تاریکی میں نئی دہلی کے سائوتھ بلاک سے نمودار ہوئے تھے۔ 18 جولائی 1947 کو برطانوی پارلیمنٹ نے Indian Independence Act منظور کیا تو یہ انتقال اقتدار کی دستاویز تھی۔ تقسیم کی لکیر کے پار ایک منظم سیاسی جماعت اور تربیت یافتہ قیادت موجود تھی جس نے آزادی اور حق حکمرانی کی امانت جمہور کو سونپنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ ادھر بابائے قوم کی اکیلی ذات تھی جنہیں کل ملا کے 13 ماہ کی مہلت ملی۔ لیاقت علی خان ایک تعلقہ دار تھے جنہیں برطانوی استعمار کی تربیت یافتہ نوکر شاہی نے 1946 ہی میں مرعوب کر لیا تھا۔ مغربی پاکستان کی مقامی سیاسی قیادت کا غالب حصہ سرکاری ہدایت نامے کا پروردہ تھا۔ متحدہ ہندوستان کی 20 فیصد آبادی، 17 فیصد مالی وسائل اور 33 فیصد سپاہ پاکستان کے حصے میں آئی تھی۔ سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں میں طاقت کا توازن اسی تناسب سے مرتب ہوا۔ قرارداد مقاصد کا بنیادی نکتہ ہی عوام کو انتقال اقتدار سے انکار تھا۔ لیاقت علی خان اکتوبر 1951 میں شہید کیے گئے لیکن انہیں غلام محمد 1948 میں بھی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ 1954 میں جنرل ایوب خان وزیر دفاع مقرر ہوئے تو غلام محمد اور چوہدری محمد علی کے ساتھ شراکت اقتدار کے خوان نعمت پر زیادہ طاقتور فریق بھی آن بیٹھا۔ 1971 ء میں ملک کا دولخت ہونا یحییٰ خان کے انتقال اقتدار سے انکار کا نتیجہ تھا۔ 1986 میں جنرل ضیا نے کھل کر اعلان کیا کہ جونیجو حکومت کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا بلکہ یہ شراکت اقتدار ہے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی شراکت اقتدار کی اسی کھینچا تانی سے عبارت تھی۔ 14مئی 2006ء کو جمہوری قوتوں میں میثاق جمہوریت شراکت اقتدار سے انکار تھا۔ اس جرم کی پاداش میں پروجیکٹ عمران کی نقاب کشائی کی گئی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میثاق جمہوریت پر ’مذاق جمہوریت‘ کی پھبتی کس نے کسی تھی۔ سیاسی مفاہمت کو مک مکاکا لقب کس نے دیا تھا۔ اکتوبر 2011 ء کے جلسے میں منصور اعجاز کے مبینہ خط کا ذکر دراصل اعلان تھا کہ عمران خان نے بگولوں کا ہم رکاب ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 2021ء کے موسم خزاں میں ’ون پیج حکومت‘ سے لطف اٹھانے والے عمران خان کا حقیقی جرم اقتدار کے بالادست فریق کی رکابی سے لقمہ اٹھانے کی کوشش تھا۔ اب ہم نگران حکومت کے زیر نگیں ہیں لیکن انتخابات کے انعقاد پر گہرے سوال ہیں۔ آپ کی طرح میں بھی دستور کے مطابق بروقت انتخاب کا طالب ہوں لیکن میری سادگی یہ ہے کہ میں انتقال اقتدار کو شفاف انتخاب کا پیمانہ سمجھتا ہوں۔ ادھر اقتدار کے ایوانوں میں غلام مشعلیں لے کر دوڑتے پھرتے ہیں کہ بگولوں اور غول بیابانی کی صف بندی

صدر کا ملک میں ”تھرتھلّی “ مچائے رکھنے کا شوق

ٹھیک نہیں بیٹھ رہی۔

Back to top button