ٹھکائی کا خوف یا بغاوت، پنجاب اور سندھ کے یوتھیے بھاگ گئے
24 نومبر کا فائنل احتجاج روکنے کیلئے حکومت نے جارحانہ پالیسی اپناتے ہوئے نہ صرف پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات ختم کر دیے ہیں بلکہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے شرپسند یوتھیوں کہ خلاف کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ چنانچہ سندھ اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی دوسری درجے کی قیادت اور یوتھیے سہم کر اپنی بلوں میں چھپ گئے ہیں۔ ایسے میں تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر خیبر پختونخواہ کو اپنی امیدوں کا مرکز بنا لیا ہے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کال پر چوبیس نومبر کو اسلام آباد میں اعلان کردہ احتجاج کو ملتوی کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں اور اس حوالے سے کارکنان گومگو کا شکار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مارچ ملتوی کیے جانے کا اعلان کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے بعض حلقے اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں اور بھرپور تیاریوں کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ لیکن لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر علاقوں سے اس احتجاج میں شامل ہونے والوں کی تیاریاں دکھائی نہیں دے رہیں۔ البتہ پی ٹی آئی حلقوں کی جانب سے پشاور سمیت مختلف شہروں سے پی ٹی آئی کارکنان کے اسلام آباد اور راولپنڈی پہنچنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امن و امان برقرار رکھنے کیلئے انتظامیہ نے اسلام آباد میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ ایک سو چوالیس کے تحت جلسے جلوسوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ جبکہ نقصِ امن کے اندیشہ پر پی ٹی آئی کے کچھ کارکنوں اور رہنمائوں کی نظربندیوں اور حراست میں لیے جانے کی بھی اطلاعات بھی ہیں۔ جبکہ تازہ پیشرفت کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے انتظامیہ کو کسی غیر قانونی جلسے یا احتجاج کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا ہے۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کو عدالتی ریلیف کی فراہمی کھ خواب بھی چکنا چور ہو گئے ہیں۔
تحریک انصاف میں جہاں انقلاب کے بلند و بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں وہیں میڈیا پر ایسی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کے پارٹی میں متحرک ہونے پر پارٹی کے کئی قائدین کو تحفظات ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض پی ٹی آئی رہنما بشریٰ بی بی سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی رہنما بشری بی بی کے آمرانہ طرز عمل سے پہلے ہی بہت نالاں تھے تاہم رہی سہی کسر ان کے ویڈیو پیغام نے پوری کر دی ہے جس کے بعد پوری پارٹی دفاعی پوزیشن پر آ گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ان کا لیڈر صرف عمران خان ہے اور ان کا متبادل لانے کی ہر کوشش کی مخالفت کریں گے۔ اگر بشریٰ بی بی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالتی ہیں تو وہ پی ٹی آئی سے کنارہ کر لیں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کے اہم ذرائع اسے بے بنیاد قراردے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ پارٹی ایک سے زائد پلان کے ساتھ چل رہی ہے۔ جن میں سے ایک پلان علی امین گنڈا پور کا بھی ہے اور وہ بانی پی ٹی آئی ہی کی ہدایت پر آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ وہ اپنے صوبے میں پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کی میزبانی بھی کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق آزاد جموں و کشمیر، پنجاب اور سندھ سے پارٹی کارکنان اور رہنما خیبرپختونخوا میں مہمان ہیں اور وہیں سے علی امین گنڈا پور کے ہمراہ حکمتِ عملی کے ساتھ نکلیں گے۔ تاہم ان کارکنوں کو بھی باور کرایا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل فائنل مرحلے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ تاکہ احتجاج میں شریک یوتھیوں کے حوصلے بڑھائے جا سکیں اور وہ دھلائی اور ٹھکائی کے خوف سے احتجاج میں شرکت سے انکاری نہ ہو جائیں۔
بشریٰ بی بی کے سعودی عرب پر الزامات شرم ناک ہیں : خواجہ آصف
تاہم ڈیل پر فوکس کرنے والے ذرائع کا خیال ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کی کال کسی وقت بھی واپس لئے جانے کا امکان ہے اور شاید کل تک یہ اعلان کردیا جائے۔ ان ذرائع کے مطابق پنجاب میں احتجاج کی تیاریاں نظر نہ آ نے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم آزاد ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق اب تک پنجاب کے کسی شہر میں احتجاج کیلئے اسلام آباد روانگی کی سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہیں۔ بلکہ مختلف اوقات میں متحرک نظر آنے والے اکثر کارکنان گومگو کا شکار ہیں۔ یہ کارکنان ’غائب‘ ہیں یا اکا دُکا دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ ٹراسپورٹ سمیت کسی قسم کے کوئی انتظامات بھی دکھائی نہیں دے رہے۔