وفاقی کابینہ اجلاس: آئینی ترمیم کی منظوری کل تک مؤخر
مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کی جانب سے آئینی ترمیمی بل کے مسودے کی منظوری کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ختم ہو گیا ہے جبکہ کابینہ کا اجلاس 19 اکتوبر کو صبح ساڑھے 9 بجے دوبارہ طلب کر لیا گیا ہے۔ جبکہ سینیٹ کا اجلاس بھی 19 اکتوبر کو 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ صبح ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئینی ترامیم منظور کر لی جائیں گی۔
خیال رہے کہ جمعہ کو جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی ملاقات کے دوران ہی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے مجوزہ آئینی ترامیم کے بل کے مسودے کی منظوری دے دی۔
ادھر میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس کل تک ملتوی کر دیا گیا ہے اور ہفتے کی صبح ساڑھے 9 بجے ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئینی ترامیمی بل کے مسودے کی حتمی منظوری دیے جانے کا امکان ہے، وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے اور منظور ہونے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پارلیمان کی خصوصی کمیٹی نے مجوزہ آئینی ترامیم کا مسودہ میڈیا کو بھی جاری کیا ہے جس میں تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
آئینی ترمیم کے حوالے سے پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے منظور کیے جانے والے مسودے کی تفصیلات کے مطابق آئین کے آرٹیکل 175 اے میں تجویز کی گئی ترمیم کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں کسی ایک کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔
مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کےلیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو ہوگی جبکہ سپریم کورٹ کے 4 سینیئر ترین جج جوڈیشل کمیشن کے ارکان ہوں گے۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ شامل ہو گا۔اسی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 2، 2 ارکان جوڈیشل کمیشن کے رکن ہوں گے، جوڈیشل کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے حکومت اور اپوزیشن کا ایک ایک نمائندہ لیا جائے گا۔
آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق ججز تعیناتی کے کمیشن میں ایک خاتون یا غیرمسلم رکن ہوں گے، یہ خاتون یاغیرمسلم سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کا الیکشن لڑنے کے اہل بھی قرار دیے جا سکتے ہیں، ایسی خاتون یا غیرمسلم کی بطور رکن تقرری چیئرمین سینیٹ کریں گے۔
مجوزہ ترمیمی مسودے کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر وزیراعظم چیف جسٹس کا نام صدر مملکت کو بھجوائیں گے، اس میں اگر کوئی جج انکار کرتا ہے تو دوسری صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام تعیناتی کے لیے پیش کیا جائے گا۔
مجوزہ ترمیمی مسودے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت 3 سال مقرر کی گئی ہے جبکہ چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی بھی تجویز ہے۔
مجوزہ آئینی مسودے کے مطابق آرٹیکل 184۔3 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن از خود نہیں دے سکتی، آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس لینے کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔
اسی طرح مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے کے متن میں آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں ہوں گے جبکہ آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری عدالت میں منتقل کر سکتی ہے۔
نئے مسودے میں آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز بھی موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا اور آئینی بینچز میں تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔