گیلانی ویڈیو سکینڈل میں PTI ارکانِ اسمبلی کی رُکنیت بھی ’خطرے میں‘

الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا نوٹی فیکیشن روکنے کی تحریک انصاف کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان کی کامیابی کا نوٹی فیکیشن تو جاری کردیا تاہم نااہلی کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کیے ہیں جس کے بعد یوسف رضا گیلانی پر نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ لیکن نااہلی کی یہ تلوار صرف گیلانی پر ہی نہیں لٹکی بلکہ ویڈیو بنانے والے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ویڈیو سکینڈل میں شامل تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو بھی فریق بنانے کا حکم دیتے ہوئے نوٹسز جاری کر دیے ہیں جس کے بعد اب یہ سوال بھی اٹھنا شروع ہو گیا ہے کہ علی حیدر گیلانی ویڈیو سکینڈل میں شامل ان اراکین اسمبلی کا مستقبل کیا ہے؟
تحریک انصاف نے اپنے مقدمے میں سینیٹ انتخابات سے ایک روز قبل علی حیدر گیلانی کی منظرعام پر آنے والی ویڈیو کو بنیاد بنایا۔ حکومتی جماعت کی جانب سے ویڈیو میں شامل تحریک انصاف کے کراچی سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی محمد جمیل اور فہیم خان کے بیان حلفی بھی جمع کروائے گئے ہیں جس میں انہوں نے موقف اپنایا ہے کہ ’انہوں نے یہ ملاقات علی حیدر گیلانی کی درخواست پر کی تھی اور پارٹی مفاد کے لیے ویڈیو بنائی۔‘
سینیئر قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو مقدمے میں فریق بنانے سے ان کی رکنیت بھی خطرے میں پڑی ہے لیکن اب یوسف رضا گیلانی یا علی حیدر گیلانی کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے ارکان نے صرف ان کی بات سنی نہیں بلکہ کچھ لین دین بھی ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اس بات سے قطع نظر کہ پی ٹی آئی ارکان نے سینیٹ انتخابات میں ووٹ یوسف رضا گیلانی کو دیا ہے یا نہیں، اگر کسی لین دین میں ملوث پائے گئے تو قانونی طور پر ان کے خلاف بھی وہی کارروائی کی جاسکتی ہے جو دیگر فریقین کے خلاف ہوگی۔‘
دوسری جانب الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے ویڈیو کی بنیاد پر کوئی ایکشن لینے کا فیصلہ کیا تو اس میں نظر آنے والے افراد بشمول علی حیدر گیلانی اور پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے لیکن یوسف رضا گیلانی چونکہ اس معاملے میں براہ راست ملوث نہیں ہیں اس لئے ان کے خلاف کوئی ایکشن لینے کا امکان بہت کم ہے۔
سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کے مطابق ’پی ٹی آئی ارکان کو بھی اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے ملاقات کی ویڈیو صرف پارٹی ہدایات یا مفاد کے لیے ہی بنائی تھی اور ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے پیسے بھی پکڑ لئے اور پھر ویڈیو بھی بنا لی۔ تاہم ان کا خیال تھا کہ الیکشن کمیشن اگر اس معاملے میں کوئی ایکشن لے لیتا ہے تو پی ٹی آئی کے دونوں اراکین اسمبلی اور علی حیدر گیلانی اپنی اسمبلی رکنیت سے فروغ ہوسکتے ہیں کیونکہ رشوت کی ترغیب دینے والے اور رشوت لینے کا ذہن بنانے والے دونوں ہی مجرم ٹھہریں کریں گے۔
سینیئر قانون دان اکرام چوہدری کے خیال میں خفیہ ویڈیو میں شامل تمام کرداروں کو فریق بنانے کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن یہ بھی معلوم کرنا چاہ رہا ہے کہ ’آیا ویڈیو بنانے والے کرداروں نے صرف ویڈیو ہی بنائی ہے یا کوئی فائدہ بھی حاصل کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ویڈیو میں علی حیدر گیلانی ہی ہیں یہ تو انہوں نے تسلیم کر لیا ہے اور تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی نے الیکشن کمیشن میں جو بیان حلفی جمع کروایا ہے اس میں انہوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ ویڈیو میں وہ موجود ہیں، اب دیکھنا ہوگا کہ لین دین کس طرح ہوا اس سے متعلق ثابت ہونا باقی ہے۔‘
اکرام چوہدی کے مطابق ’بنیادی طور پر یہ مقدمہ کرپٹ پریکٹسز پر تو پورا اترتا ہے، لیکن کرپشن کرنے والا اور مددگار دونوں ہی کرپٹ پریکٹسز میں شامل ہوتا ہے تاہم جرم کی تکمیل میں دوسرے فریق کا کردار کتنا تھا یہ ابھی ثابت ہونا ہے، اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے تو نتائج ان کے خلاف بھی آسکتے ہیں۔‘ اکرام چوہدری کے مطابق ’علی گیلانی کے ویڈیو میں اپنی موجودگی تسلیم کرنے کے بعد ان کے خلاف کیس تو کافی مضبوط ہوچکا ہے اور اس کے بینیفشری کے طور پر یوسف رضا گیلانی کے خلاف بھی ایکشن ہو سکتا ہے خصوصا جب کے پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنا سیاسی کردار محدود کرنے پر تیار نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ ’ویڈیو میں شامل ارکان اسمبلی محمد جمیل اور فہیم خان کو بطور گواہ شامل کرنا چاہتے ہیں تاہم کمیشن نے مذکورہ ارکان اسمبلی کو مقدمہ میں باقائدہ فریق بنانے کا حکم دیا ہے۔‘ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کہتے ہیں کہ ’دونوں ارکان اسمبلی فریق بننے کے بعد عدالت میں فریق کی حیثیت سے اپنا جواب جمع کروائیں گے۔ ’اب وہ گواہ نہیں بلکہ فریق کی حیثیت سے اپنا جواب جمع کروائیں گے اور ان کے جواب کو کاؤنٹر کرنے کے لیے حیدر گیلانی کو شواہد دینا ہوں گے۔‘
تاہم سینیٹ الیکشن کے روز پولنگ بوتھ میں لگائے گئے خفیہ کیمرے پکڑے جانے کے بعد اب یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان ان کیمروں کے حوالے سے بھی حکومتی جماعت کے خلاف کوئی ایکشن لیتا ہے یا نہیں۔