حکومت نے اینٹی سولر پالیسی اپنالی، گرین میٹر کی قیمت ڈبل کر دی

آج کل بہت سے پاکستانی شہری بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہو کر سولر پینلز لگوا رہے ہیں۔ایسے میں یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ حکومت سولر پینلزپر بھی ٹیکس لگانے والی ہے اور اگر ٹیکس نہیں لگایا گیا تو نیٹ میٹرنگ کے بجائے گراس میٹرنگ کا نیا سستم نافذ کر دیا جائے گا۔ تاہم تازہ اطلاعات کے مطابق حکومت نے سولر سسٹم استعمال کرنے والے مہنگائی کے ستائے عوام پر ایک اور بم گراتے ہوئے گرین میٹر کی قیمتوں میں سو فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اینٹی سولر پالیسی لا رہی ہے جس میں گرین انرجی کی مخالفت کرتے ہوئے سولر لگانے والے صارفین کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ سولر کے لیے بائی ڈائریکشنل میٹر وہ صارفین لگواتے ہیں جن کے گھروں یا دفاتر میں لگائے جانے والے سولر سسٹم قدرے زیادہ بجلی پیدا کر رہے ہیں، اور وہ اضافی بجلی ڈیسکوز کو فروخت کر دیتے ہیں۔بڑی تعداد میں صارفین اس لیے بھی بڑے سولر سسٹم لگواتے ہیں کہ رات کو استعمال ہونے والی بجلی دن میں سولر کی اضافی پروڈکشن سے ان کا خرچ مزید کم ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کی بجلی کی تقسیم کار کمپنی لیسکو سمیت کئی کمپنیوں نے گذشتہ سال نومبر میں سولر پینل کے لیے گرین میٹرز کی درخواستیں لینا بند کر دی تھیں۔تاہم اب جنوری کے مہینے سے دوبارہ درخواستوں کا حصول تو شروع کیا گیا ہے تاہم بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے گرین میٹر کی قیمت میں سو فیصد اضافہ کر دیا ہے۔

گرین میٹر کی قیمتوں میں سو فیصد اضافے پر عوام پریشانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسے ہی ایک شہری محمد عدنان کا تعلق لاہور سے ہے، انہیں حال ہی میں لیسکو کی جانب سے جو ڈیمانڈ نوٹس ملا ہے اس سے وہ خوش دکھائی نہیں دیتے۔ان کا کہنا تھا کہ ’میں کئی مہینوں سے لیسکو کے دفاتر کے چکر لگا رہا تھا۔ پہلے کہا گیا کہ میٹر ختم ہوئے ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ میٹر آگئے ہیں لیکن حکومت نے نئے ڈیمانڈ نوٹس نکالنے بند کر دیے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ سولر انرجی سے متعلق نئی پالیسی آئے گی تو میٹر لگیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ چکر لگا رہے تھے تو اس وقت 33 ہزار پانچ سو روپے میں ڈیمانڈ نوٹس جاری ہو رہا تھا۔ ’لیکن اب جب مجھے ڈیمانڈ نوٹس ملا ہے وہ 65 ہزار روپے کا ہے۔ جب پوچھا تو بتایا گیا کہ نئی پالیسی آ گئی  ہے۔‘

کچھ ایسی ہی صورتحال شیخوپورہ کے رانا شاہد کے ساتھ بھی درپیش ہے، جن کا کہنا ہے کہ ان کی گرین میٹر کی درخواست قبول نہیں کی گئی تھی، لیکن اب قیمت سو فیصد بڑھا کر بتائی جا رہی ہے۔

’یہ زیادتی ہے۔ کم از کم ایسے لوگ جو کئی مہینوں سے درخواستیں ہاتھ میں لے کر پھر رہے ہیں، اگر حکومت کوئی نئی پالیسی بناتی ہے تو اس کا اطلاق پالیسی بننے کے وقت سے ہونا چاہیے، نا کہ کئی مہینے پہلے تک درخواستیں لینا روک دی جائیں۔‘

رانا شاہد نے مزید کہا کہ ’جو بندہ آج درخواست دے رہا ہے، اس پر تو نئی فیس لاگو ہونا سمجھ آتا ہے۔ پہلے کہتے تھے سولر لگواؤ اور اب یوں لگتا ہے کہ حکومت سولر لگانے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔‘

گرین میٹرز کی نئی پالیسی کے تحت بعض لوگوں کو 75 ہزار روپے کے بھی ڈیمانڈ نوٹس موصول ہوئے ہیں، جن میں سٹور چارجز اور انسٹالیشن چارجز بھی زیادہ شامل کیے گئے ہیں۔

آرمی ایکٹ، آفیشل سیکریٹ میں ترامیم سے متعلق عمران خان کی درخواست پر عائد اعتراضات ختم

اس صورتحال بارےشمسی توانائی کے کاروبار سے وابستہ محمد فرخ کہتے ہیں کہ ’اس وقت ہر کوئی سولر سے بجلی بنانےکا خواہاں ہے، لیکن حکومت شاید اس کے لیے تیار نہیں تھی، جس کی وجہ سے حکومت کی اپنی بجلی کی قیمت بڑھی ہے۔‘

محمد فرخ کے مطابق ’اضافی بوجھ ایسے صارفین پر آ رہا ہے جو واپڈا کی بجلی پر گزارا کر رہے ہیں۔ حکومت اس نئی صورتحال میں اپنے آپ کو ری ایڈجسٹ کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے ٹیرف میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ یہ تو ابھی میٹرز کی بات ہے، ہمیں لگ رہا ہے کہ حکومت ابھی مزید اقدامات بھی لے گی۔ اور دوسرے صارفین کا گیپ کم کرنے کی کوشش کرے گی۔

Back to top button