حکومت کاٹرین حملےکےبعدعلیحدگی پسندبلوچوں کوٹھوکنےکافیصلہ

جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کے بعد ٹرین مسافروں کے قتل عام نے سویلین اور عسکری حکام کو یہ اصولی فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر پوری طاقت سے فوجی آپریشن شروع کیا جائے تاکہ اس فتنے کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔

باخبر سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی ترجمان کا وہ بیان ذہن میں رکھنا چاہیے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اس ٹرین حملے نے رولز آف گیم تبدیل کر دیئےہیں۔

باخبر سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ 2014 میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے حملے کے بعد بھی سویلین اور عسکری قیادت نے مل کر ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا اور پھر ٹی ٹی پی کے خلاف ایک ملک گیر فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا تھا۔

اس آپریشن کے نتیجے میں وزیرستان سے کراچی تک تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد نیٹ ورک کا خاتمہ کیا گیا تھا، اس اپریشن کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت ماری گئی تھی اور بقیہ جنگجو بارڈر کراس کر کے افغانستان فرار ہو گئے تھے۔

تاہم، افسوس کہ عمران خان کی سابقہ حکومت نے جمرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے ساتھ مل کر تحریک طالبان کے جنگجوؤں کو واپس پاکستان لا بسایا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ٹی ٹی پی نے ملک میں اپنا دہشت گرد نیٹ ورک پھر سے بحال کر لیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

باخبر سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ جعفر ایکسپریس کے مسافروں خصوصا فوجی جوانوں کا قتل عام بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قتل عام کے بعد بلوچی دہشت گرد تنظیموں کی عوام میں رہی سہی سپورٹ بھی ختم ہو گئی ہے۔

لہذااب ایسے عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر پوری طاقت کے ساتھ فوجی اپریشن شروع کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں سال 2024 میں دہشت گردی کے واقعات میں جو اضافہ دیکھنے کو ملا ہے وہ سال 2023 کے مقابلے میں 84 فیصد زیادہ ہے۔

تاریخ پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حالیہ ٹرین واقعہ اندوہناک ہے کیوں کہ اس واقعے سے پہلے تک بلوچوں کو مہمان نواز کہا جاتا تھا۔

ماضی میں اگر دشمن بھی ان کے ہاں آ جاتا تھا تو اسے بھی پناہ ملتی تھی، جس کی تاریخ میں کئی مثالیں ملتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی ٹرین حملے کے بعد جب صوبائی اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ اب تاریخ میں لکھا جائے گا کہ بلوچوں نے نہتے لوگوں کا قتلِ عام کیا

دراصل اس جملے کے پیچھے سینکڑوں ہزاروں سال کی روایات کھڑی ہیں۔ قبائلی سماج میں روایات کی پاسداری کو اپنی جان سے بھی مقدم جانا جاتا ہے لیکن بلوچستان کی حالیہ یورش میں ان روایات کو بھی پامال کر کے رکھ دیا گیا ہے۔

بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر غیر بلوچوں کو بے دردی سے قتل کیے جانے کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچ قوم پرست باغیوں نے عام لوگوں اور سکیورٹی فورسز پر گذشتہ سال 202 حملے کیے جن کے نتیجے میں 322 لوگ اپنی جانوں سے گئے جن میں 62 لوگ ایسے تھے جنہیں صرف اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ بلوچ نہیں تھے۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان میں موجودہ شورش نواب اکبر خان بگٹی کے قتل سے شروع ہوئی۔ اس قتل کا سبب مشرف دور میں سوئی کے علاقے میں ایک آرمی کیپٹن کے ہاتھوں ڈاکٹر شازیہ خالد کا ریپ تھا۔

نواب اکبر بگٹی نے جنرل پرویز مشرف سے ڈاکٹر شازیہ کو ریپ کرنے والے فوجی افسر کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے  آرمی کیپٹن کو بے گناہ قرار دے کر الٹا ڈاکٹر شازیہ پر الزام لگا دیا۔

چنانچہ اکبر بگٹی ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے دوٹوک مؤقف اپنایا کہ سوئی کی زمین پر کسی بیٹی کے ساتھ ظلم کرنے والے کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اسکے بعد سوئی میں حالات خراب ہو گئے اور بگٹی قبائل اور سیکورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں جو بالآخر 26 اگست 2006 کو نواب اکبر بگٹی کی شہادت پر منتج ہوئیں۔

اس کے بعد سے بلوچ قوم پرستوں نے ریادت پاکستان کے خلاف یورش کا آغاز کر رکھا ہے۔ تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ اکبر بگٹی جنہوں نے ایک غیر بلوچ لڑکی کو انصاف دلانے کے لیے اپنی جان قربان کی تھی، آج انہی کے نام پر شناختی کارڈ دیکھ کر غیر بلوچوں کو گولی سے اڑایا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اسی بلوچستان کی سرزمین پر ہو رہا ہے جو قبائلی روایات کی پاسداری کو اپنی جان سے بھی زیادہ مقدم جانتی ہے۔

Back to top button