عمرانڈو ججز نے چیف جسٹس آفریدی کی ناک میں دم کیسے کر رکھا ہے ؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 عمراندار ججز کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنیارٹی کے معاملے پر دائر کردہ پٹیشن نے چیف جسٹس یحیی آفریدی کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ اس سے پہلے جسٹس یحیی آفریدی کے دو ساتھی ججز منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے بھی اپنے خطوط کے ذریعے چیف جسٹس کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ تاہم ائینی ماہرین کا کہنا ہے کہ 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ سے بھی خارج ہو جائے گی۔

اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی جانب سے سنیارٹی کے معاملے پر سپریم کورٹ میں درخواست کرنے کا معاملہ سیاسی اور قانونی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے ذریعے 49صفحات پر مشتمل درخواست آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر کی گئی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب وزارت قانون و انصاف نے یکم فروری کو ایک نوٹی فکیشن جاری کیا تھا جس میں تین ججز جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا ان کی متعلقہ ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا تھا۔

آئینی ماہرین کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم آنے کے بعد آئینی بینچ بننے اور دو سینئر ججز کی موجودگی میں جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ججز اپنے تحفظات کا اظہار کھلے عام کر رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری میں سینئر ججز کی عدم شرکت پر بھی سوالات اُٹھائے گئے تھے۔ بعض آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ سینئر ججز کی طرف سے چیف جسٹس کو بار بار لکھے جانے والے خطوط اور میڈیا میں ان کی تشہیر ، وکلا تنظیموں کی تقسیم سے عدلیہ کے مختلف اداروں میں تقسیم کا تاثر مزید گہرا ہو رہا ہے۔

یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں لاپتا افراد کے معاملے سمیت ٹیکس کیسز اور دیگر معاملات پر بات چیت کی گئی۔

اپوزیشن کی طرف سے اس ملاقات پر تنقید کے بعد چیف جسٹس نے اپوزیشن کے وفد کو بھی ملاقات کی دعوت دی جس میں اپوزیشن کی طرف سے مختلف معاملات پر بات چیت کی جائے گی۔ سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ قرار دے کے صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات نہیں ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ مفاد ِِ عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 200 محض عارضی تبادلے سے متعلق ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ٹرانسفر نوٹی فکیشن، سنیارٹی اور ریپریزنٹیشن پر دیا گیا فیصلہ آرٹیکل 200 کی شق ایک کے خلاف ہے۔ ججز کا تبادلہ سنیارٹی لسٹ کو متاثر کیے بغیر صرف عارضی طور پر ہو سکتا ہے۔

ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز ٹرانسفر کا فیصلہ مفادِ عامہ کے تحت نہیں کیا گیا۔ ججز کا ٹرانسفر کچھ اور وجوہات کے سبب کیا گیا ہے۔ ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر آرٹیکل 175 اے کے برخلاف ہے۔ عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو بطور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کام سے روک دیا جائے۔ اسی طرح جسٹس خالد سومرو اور جسٹس محمد آصف کو جوڈیشل ورک سے بھی روک دیا جائے۔ آئینی درخواست میں صدر پاکستان ، وفاق، جوڈیشل کمیشن ، رجسٹرار سپریم کورٹ سمیت سندھ لاہور، بلوچستان ہائی کورٹس کے رجسٹرار، اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار، جسٹس سرفراز ڈوگر ، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف کو فریق بنایا گیا ہے۔ منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے توسط سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ٹرانسفر ہونے والے ججز کا نیا حلف نہ لینا آئینی خلاف ورزی ہے۔

درخواست کے مطابق سنیارٹی لسٹ کو تبدیل کرنا آرٹیکل 2 اے کے خلاف ہے۔ ججز کا ٹرانسفر کرکے سنیارٹی لسٹ جس انداز میں تبدیل کی گئی یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے انتظامی امور میں مداخلت ہے۔ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس وقت ججز کے درمیان اختلافات واضح طور پر نظر آ رہے ہیں کہ کون سا جج کس سوچ کے ساتھ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اب ہائی کورٹ کے چھ میں سے پانچ ججز نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے خلاف پٹیشن دائر کردی ہے۔ اُن کے بقول اس سے نظر آتا ہے کہ یہ سب ججز ایک پیج پر ہیں، ان سب نے 26 ویں آئینی ترمیم کو کسی طرح قبول نہیں کیا اور اب اس کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ یہ عدم توازن ہے اور واضح طور پر نظر بھی آرہا ہے۔

شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ درخواست سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہے اور 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اس درخواست کو سننا بھی آئینی بینچ نے ہی ہے۔ اُن کے بقول وہ ججز جو 26 ویں آئینی ترمیم کو مانتے ہی نہیں، چاہے انہیں پسند ہو یا نہ ہو لیکن یہ ترمیم آئین کا حصہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب آئین کے مطابق یہ کیس آئینی بینچ نے سننا ہے جس کے بعد عجیب سلسلہ شروع ہوگا جس میں ججز کہیں گے کہ اس کیس کو فل کورٹ سنے جب کہ بعض ججز کا مؤقف ہو گا کہ اسے آئینی بینچ سنے جس سے صورتِ حال مزید خراب ہوتی نظر آئے گی۔ شاہ خاور ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ بظاہر کسی طرف سے کوئی استعفیٰ آتا دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ اگر ایسا ہونا ہوتا تو بہت پہلے ہو چکا ہوتا۔ لہذا ججز سسٹم کے اندر رہتے ہوئے ہی مزاحمت کریں گے۔

گرینڈ الائنس: مولانا اور عمران سچے پریمی کیوں نہیں بن پائیں گے؟

شاہ خاور ایڈووکیٹ کے مطابق ججز کے درمیان تقسیم اس طرح سے نظر آ رہی ہے کہ ایوان صدر میں جسٹس سرفراز ڈوگر کی تقریب حلف برداری میں ان تمام ججز میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہوا تھا۔ اُن کے بقول اس سے نظر آتا ہے کہ یہ ججز اپنے خیالات اور اختلاف کو چھپانا بھی نہیں چاہ رہے اور اس بات کا اظہار انہوں نے اس تقریب میں شریک نہ ہو کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس عامر فاروق نےرواں ماہ پانچ ججز کی سنیارٹی ری پریزنٹیشن مسترد کی تھی۔ جسٹس سرفراز ڈوگر کو سنیارٹی میں سینئر پیونی جج بنانے پر پانچ ججز نے ری پریزنٹیشن فائل کی تھیں۔ جسٹس عامر فاروق نے وجوہات کے ساتھ ججز کی سنیارٹی بدلنے کے خلاف پانچ ججز کی ری پریزنٹیشن مسترد کرنے کے تحریری فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ میں ججز کے تبادلے کا حوالہ بھی شامل کیا تھا جب کہ فیصلے میں ججز کی تعیناتی، تبادلے اور ججز کے حلف سے متعلق آئین کی متعلقہ شقیں بھی شامل کی گئی ہیں۔

Back to top button