کپتان نے تعمیراتی شعبے کے پیکج سے کس کو نوازا ہے؟

تعمیراتی شعبے کیلئے وزیر اعظم کی طرف سے اعلان کردہ پیکج سے جہاں پاکستان میں موجود کالے دھن کے گردش میں آنے سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے وہیں ناقدین اسے وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں کو نوازنے کی کوشش کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہ پوچھنے کی شق کی وجہ سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ تعمیراتی شعبے کو دیا گیا استثنیٰ، بینکنگ نظام کے ذریعے ملکی معیشت میں کالے دھن کی روک تھام میں بھی رکاوٹ بنے گا۔
ماہرینِ اقتصادیات نے حکومتی پیکج میں سب سے اہم نقطہ تعمیراتی شعبہ میں سرمایہ کاری کی صورت میں ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے استثنیٰ کو قرار دیا ہے۔ ان کی رائے میں وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تعمیراتی شعبے کے لیے پیکج کے اعلان ذریعے پاکستان میں موجود کالے دھن کے گردش میں آنے سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ تعمیراتی شعبے کیلئے اعلان کردہ پیکج سے عام عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا بلکہ حکومتی پالیسی کے ذریعہ وزیر اعظم نے پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ اپنے قریبی ساتھوں کو نوازنے کی کوشش کی ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھانے کی خاطر تعمیراتی شعبے پر سے لاک ڈاؤن کی پابندیاں اٹھاتے ہوئے اس کے لیے مراعاتی پیکج کا اعلان کیا تھا اور تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کی صورت میں انوسٹرز کو ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق پاکستان میں بہت بڑی مقدار میں کالا دھن موجود ہے۔ ’یہ پیسہ باہر اس لیے نہیں آرہا کہ یہ کالا دھن ہے اور سرمائے کے طور پر استعمال کرنے کی صورت میں ذرائع آمدن ظاہر کرنا پڑتے ہیں۔ان کے مطابق پاکستان میں موجود کالے دھن کی مقدار کا اندازہ پاکستانیوں کی بیرون ملک سرمایہ کاری سے لگایا جا سکتا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستانیوں نے ایک سال میں دبئی اور یو اے ای کی دوسری ریاستوں میں پراپرٹی کے کاروبار میں آٹھ ارب ڈالرز تک کی سرمایہ کاری کی۔ اسی طرح کالا دھن رکھنے والے پاکستانی یورپ اور امریکہ میں بھی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ذرائع آمدن ظاہر کرنے کی شرط ہٹ جانے کی صورت میں باہر جانے والا کالا دھن پاکستانی معیشت کا حصہ بنے گا جس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق تعمیراتی شعبے کیلئے حکوتی اعلان کردہ پالیسی بڑے بلڈرزاورہاؤسنگ سکیم کے مالکان کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگی۔ تاہم ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے صدر محسن شیخانی نے وزیر اعظم کے پیکج کو سراہتے ہوئے اسے ملک میں معاشی سرگرمیوں کے تیزی سے بڑھنے کا پیش خیمہ قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں کم از کم پانچ سے چھ سو تعمیراتی پراجیکٹس پر کام فوراً شروع ہو جائے گا، جس سے بہت بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع نکلیں گے۔ تعمیراتی شعبے کو دی گئی مراعات سے نئے پراجیکٹس بھی آئیں گے اور تعمیراتی صنعت کا سائز بھی بڑھے گا۔تاہم محسن شیخانی کا کہنا تھا کہ حکومت کو خیال رکھنا ہو گا کہ مراعات صرف زمینوں کی خریدو فروخت تک محدود نہ رہیں، بلکہ ان سے واقعتاً تعمیراتی کام ہونا چاہیے۔
اقتصادی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر نے وزیر اعظم عمران خان کی تعمیراتی شعبے سے متعلق پالیسی کو خوش آئند قرار دتے ہوئے کہا کہ اس سے غریب طبقے کو بڑی حد تک ریلیف ملے گا۔ نئی پالیسی کے آنے کے بعد ملک میں معاشی سرگرمی بڑی حد تک دوبارہ سے شروع ہو جائے گی اور محنت کشوں کو اس سے فائدہ ہو گا۔
پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ تعمیراتی شعبے کے ریلیف کیلئے دئیے گئے پیکج کا وقت انتہائی نامناسب ہے کیونکہ اب جبکہ ملک میں کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے معاشرتی دوری کی باتیں کی جا رہی ہیں تو ایسے میں اس پالیسی کے ثمرات کیسے حاصل ہو پائیں گے؟ انہوں نے کہ اچھی پالیسی کا اعلان غلط وقت پر کیا جائے تو اس سے فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ تاہم انہوں نے تعمیراتی شعبے پر فکسڈ ٹیکس لگانے کے فیصلے کی بھی مخالفت کی۔ پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ تعمیراتی شعبے کے لیے ٹیکس کم کرنا دوسری صعنتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے جو اصولی طور پر بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ٹیکس ایمنسٹی جیسی سکیم ہے لہذا دوسری صنعتوں کو بھی ٹیکس میں چھوٹ ملنی چاہیے۔
دوسری طرف حکومتی ناقدین کہتے ہیں کہ حکومتی پالیسی ظاہر کرتی ہے کہ عمران خان اب زمینی حقیقتیں جان گئے ہیں۔ وہ اب جان گئے ہیں کہ شفاف معیشت کا وعدہ پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تعمیراتی شعبے میں سرمایہ لگانے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے لیکن ماہرین کے خیال میں تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہ پوچھنے کی شق ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ عالمی حالات پر نظر رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا تھا کہ یہ چھوٹ دینے سے پاکستان کا بینکنگ کا نظام کالے اور سفید دھن کے حوالے سے کوئی کنٹرول نہیں رکھ پائے گا۔اس پیکج کی یہ شق پاکستان کے لیے بیک فائر کر سکتی ہے۔ اور مسائل بن سکتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ آمدن کے ذرائع نہ پوچھے جانے والی چھوٹ اسلام آباد کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔تاہم انہوں نے کہا یہ ایک غیرمعمولی صورت حال ہے اور ساری دنیا غیرمعمولی اقدامات اٹھا رہی ہے۔پاکستان بھی اپنا کیس اس طرح ایف اے ٹی ایف میں پیش کر سکتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا سے ہونے والے نقصانات کی شدت کم کرنے کے لیے ایسے اقدامات ضروری تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button