الیکشن کمیشن کا لیا گیا بلا پشاور ہائیکورٹ نے واپس کیسے کیا؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹراپارٹی الیکشن مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف سے واپس لیا گیا بلے کا انتخابی نشان پشاور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے پی ٹی آئی کو واپس کر دیا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل کو سنے بغیر پی ٹی آئی کے حق میں حکم امتناعی دینے کے حوالے سے جہاں قانونی ماہرین اور سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں وہیں سوشل میڈیا پر بھی عدالتی فیصلے بارے گرما گرم بحث چھڑ گئی، قانونی ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ عدالت کا بغیر حاضری کے عبوری فیصلہ سنا دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مخالف وکیل کو نوٹس کے بغیر اور سماعت کی پہلی تاریخ پر فیصلہ سنا دینا حیرت انگیز ہے۔

 ماہر قانون ایڈووکیٹ اسامہ خاور کہتے ہیں: "عدالت کا مخالف فریق کے وکیل کی موجودگی کے بغیر عبوری فیصلہ سنا دینا غیر معمولی بات نہیں ہے، خاص طور پر سماعت کے ابتدائی نوٹس کے مرحلے میں۔ اس مرحلے میں عام طور پر عبوری ریلیف دینا شامل ہوتا ہے۔ جسے عام طور پر ʼاسٹے ʼ کہا جاتا ہے اور اس طرح کا فیصلہ کرنے سے پہلے دوسرے فریق کو سننا ضروری نہیں ہے۔ اس معاملے میں، عدالت نے فیڈریشن کے وکیل کو سنا، اور ECP کے لیے یہ عام بات ہے۔ بعض صورتوں میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کی طرف سے نمائندگی کی جاتی ہے۔”وہ مزید کہتے ہیں: "فیصلے کو غیر معمولی حالات سے منسوب کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ آنے والے عام انتخابات اور ممکنہ ناقابل تلافی نقصان جس کا پی ٹی آئی کو دیے گئے حالات میں سامنا ہو سکتا ہے۔

ناقابل تلافی نقصان کا مظاہرہ کرنا عبوری ریلیف دینے کے لیے ایک اہم بات ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عدالت کا فیصلہ قانونی اصولوں اور حالات کی فوری ضرورت کے مطابق ہے۔”بیرسٹر علی طاہر ان نکات پر متفق ہیں اور بتاتے ہیں کہ "اشتہاری عبوری احکامات عام طور پر بغیر اطلاع کے، اور سماعت کی پہلی تاریخ پر کیے جاتے ہیں، جو یقیناً دوسری طرف کی سماعت کے بعد ترمیم کے تابع ہوتے ہیں۔

وکلاء اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ای سی پی اب پشاور ہائی کورٹ کے بدھ کو سنائے گئے عبوری فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے انٹرا کورٹ اپیل یا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا انتخاب کر سکتا ہے۔ "تکنیکی طور پر، ای سی پی کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی اجازت کے لیے درخواست دائر کرکے اس عبوری حکم کو چیلنج کر سکتا ہے، جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم کے خلاف اس کے حالیہ اقدام کی طرح ہے۔”تاہم، وہ اس بات پر قائل نہیں ہیں کہ آیا ای سی پی کو اس کا انتخاب کرنا چاہیے: کیونکہ عبوری فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے سے پارٹی کے خلاف الیکشن کمیشن کے تعصب کے الزامات بڑھ سکتے ہیں.ممکنہ طور پر پی ٹی آئی کے اس بیانیے کو تقویت ملے گی کہ ای سی پی غیر منصفانہ طور پر پارٹی کو نشانہ بنا رہا ہے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سوال صرف بلے کے نشان کا نہیں ہے یہ بہت بنیادی سوال ہے کہ کیا پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت بیلٹ پیپر پر ہوگی یا نہیں ہوگی‘ الیکشن کمیشن کے کچھ فیصلے پی ٹی آئی کے خلاف ہیں اس سلسلے میں عدالتیں وضاحت دے دیں تو بہتر ہو گا، ریاست کا ایک بہت طاقتورعنصر نہیں چاہتا کہ پی ٹی آئی الیکشن جیتے وہ پی ٹی آئی کے خلاف ہے۔9 مئی کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔

تجزیہ کارریما عمر کے مطابق کیا الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیارہونا چاہئے کہ وہ یہ کہے کہ ہم آپ کو انتخابی نشان ہی نہیں دیں گے ۔سیاسی جماعت کے لئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہے یہ آئین کے آرٹیکل کی شق17 کے بھی خلاف ہے ۔پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا ہے ابھی اس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیاشاید یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی آئے۔بہتر ہے کہ ہمیں وضاحت ملے کہ الیکشن کمیشن کا کیا رول ہے ۔ الیکشن کمیشن کے کچھ فیصلے پی ٹی آئی کے خلاف ہیں اس سلسلے میں عدالتیں وضاحت دے دیں تو بہتر ہوگا۔اس وقت عدالتیں آزاد ہیں اور آزادانہ فیصلے کررہی ہیں ۔

دوسری جانب تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ اچھا فیصلہ ہے بروقت فیصلہ ہے اور انصاف پر مبنی فیصلہ ہے۔ الیکشن کمیشن کا متنازع جانبدارانہ فیصلہ تھا جو معطل ہوا ہے جس پر وقتی طور پر ریلیف ملا ہے۔ ارشاد بھٹی کے مطابق الیکشن کا پہلا مرحلہ جو کاغذات نامزدگی والا ہے اس میں تو کبھی بھی ایسا نہیں دیکھا گیا جیسا ہوا ہے۔تاہم 9 مئی میں جو جو ملوث ہے اس کو سیاست میں

پاکستان کا فتح ٹومیزائل کاکامیاب تجریہ

نہیں ہونا چاہئے۔

Back to top button