عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر کتنے خطرناک ثابت ہوں گے؟
اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے فارغ ہونے والے عمران خان کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ بے دخلی کے بعد پہلے سے بھی زیادہ زہریلے اپوزیشن لیڈر ثابت ہوں گے، لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت میں ہونے کا ایڈوانٹیج کھونے کے بعد اب وہ اتنے خطرناک ثابت نہیں ہوں گے جتنا کہ پہلے تھے۔
یاد رہے کہ اپنے پونے چار سالہ اقتدار کے دوران وزیر اعظم ہونے کے باوجود عمران خان کا بنیادی فوکس اپنی اپوزیشن کا رگڑا نکالنے پر تھا۔ اسی وجہ سے وہ عوام کے مسائل پر توجہ دینے میں ناکام رہے اور انہیں اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔ یوں وہ ملک کے پہلے وزیر اعظم بن گئے جسے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں میں بے دخل ہونا پڑا۔ عمران خان نے فراغت کے فوری بعد اپنی توپوں کا رخ اپوزیشن کی جانب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت کے منتخب اراکین قومی اسمبلی اپنی نشستوں سے مستعفی ہو جائیں گے تاکہ حکومت کے لیے بحران پیدا کر کے نئے انتخابات کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔
دوسری جانب ایسی اطلاع بھی ہے کہ استعفوں کے معاملے پر ان کی جماعت میں پھوٹ پڑ چکی ہے۔
ان حالات میں جہاں عمران کے ساتھیوں کا اصرار ہے کہ وہ اپنی جارحانہ حکمت عملی کے باعث اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت کے لیے ذیادہ بڑی مصیبت بن سکتے ہیں وہیں انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے والی اپوزیشن قیادت کا کہنا ہے کہ بطور وزیر اعظم عوام کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ کرنے والا کپتان عوام میں بے نقاب ہو چکا ہے اور مشکلات کا سامنا کرنے کی باری بھی اسی کی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنے مزاج کے حوالے سے پیدائشی طور پرحزب اختلاف کے لیڈر ہیں۔ ان کے بقول عمران خان جتنا وزارت عظمی پر رہے، وہ وزیر اعظم کم اور اپوزیشن لیڈر زیادہ نظر آئے۔ ‘وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے والے یا اتفاق رائے پر یقین رکھنے والے مزاج کے حامل نہیں ہیں جسکی بنیادی وجہ انکی خود پسندی ہے۔ وہ خود کو ایک دیوتا سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انکے ساتھی ان کی پوجا کریں۔
بطور صحافی عمران خان کو قریب سے دیکھنے والے طاہر ملک کا کہنا ہے کہ وہ ایک فاسٹ باولر کی طرح تیز گیند پھینک کر اپنے حریف کو خوفزدہ کرنے اور داد سمیٹنے والے انسان ہیں۔ یہی رویہ یمیں انکی سیاست میں بھی نظر آیا اور ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بھی بنا۔ موصوف جب تک اپوزیشن کا باونسرز مارتے رہے ان کے لئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، لیکن جب خان نے خود کو اقتدار میں لانے والی اسٹیبلشمنٹ کو یارکر مارا تو کلین بولڈ ہو گے۔
لیکن کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں عمران خان بطور وزیر اعظم ناکام رہے لیکن اپوزیشن لیڈر کے طور پر ان کی کارکردگی کافی موثر ہونے کا امکان ہے کیونکہ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان اگر ڈر کر گھر بیٹھ گئے تو وہ انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن جائیں گے اس لیے وہ نئی حکومت کی جتنی اپوزیشن کریں گے اتنا ہی عافیت میں رہیں گے۔ تجزیہ کار طاہر ملک کے بقول ان کے لیے بظاہر ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح کوئی بہانہ کرکے کچھ عرصہ کے لیے ملک سے باہر چلے جائیں لیکن اس سے ان کو بہت سیاسی نقصان ہوگا۔
اسلیے نہیں لگتا کہ وہ ایسا کریں گے۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران ماضی کی طرح میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کیا ایک موئثر پوزیشن ثابت ہوں گے اور کیا وہ ایک موثر احتجاجی تحریک چلا سکیں گے؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول حکومت حاصل کرنے والی متفرق الخیال سیاسی جماعتوں کے ممکنہ اختلافات اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے سنگین معاشی مسائل عمران خان کے احتجاجی مستقبل کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز عمران خان کی کال پر ملک بھر میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے موثر احتجاج کیا جس سے لگتا ہے کہ آگے بھی احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
طاہر ملک کہتے ہیں کہ عمران حکومت میں رہ کر جان چکے ہیں کہ مہنگائی ختم نہیں ہو سکتی، روپے کی قدر کو بہت زیادہ نیچے لے کر آنا بھی آسان نہیں، پٹرول کی قیمتوں کو زیادہ دیر تک بڑھنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس لیے عوام کے معاشی بوجھ میں کافی اضافہ ہونے والا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جو ان کو بطور اپوزیشن لیڈر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔
لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران نے اقتدار سے نکلتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کا جو بیانیہ اپنایا اس کے اثرات ان کے مستقبل کی سیاست پر بھی مرتب ہوں گے۔ اپنی حکومت کے آخری روز عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو برطرف کرنے کی کوششوں کی اطلاعات نے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ ان کی بے دخلی میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی حصہ تھا، لیکن ملکی سیاست میں اس تاثر کا فائدے سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
دوسری جانب عمران کے حامیوں کہنا ہے کہ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تو "مجھے کیوں نکالا‘‘ والی غصیلی احتجاجی سیاست کرنے والوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو مستقبل میں عمران کی پھر سے ضرورت پڑ سکتی ہے اور یہ دونوں دوبارہ مل بھی سکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ تاثر موجود ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں ایک حلقہ اب بھی عمران کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتا ہے۔
انکا کہنا یے کہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد مظلومیت یا عوامی ہمدردی کی وجہ سے بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی اب اب وہ ماضی کی چند سیٹوں والے عمران خان نہیں بلکہ ڈیڑھ سو کے قریب نشستیں رکھنے والے موثر اپوزیشن لیڈر ہیں۔
تحریک انصاف نے وزیر اعظم کے انتخاب کا بائیکاٹ کر دیا
انہیں میگا جلسے کرنا آتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کی سائنس کو سمجھتے ہیں
، لوگوں کو ان سے جذباتی وابستگی ہے اور وہ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہین ایسے میں اگر عمران خان سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو ٹائم دیں تو وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ لیکن اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کو زیادہ ٹائم دینے کی بجائے ‘کنٹینر ٹائپ‘ احتجاج پر زیادہ فوکس رکھیں گے۔ تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ عمران اپنی ماضی کی اور اپوزیشن اور موجودہ حکومت کے لیے کتنے خطرناک ثابت ہوتے ہیں؟
How dangerous will Imran Khan be as Leader of Opposition? video