جنرل باجوہ نے اپنی توسیع کے چکر میں فیض حمید کو کیسے مروایا؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر نے کہا ہے کہ کورٹ مارشل کے نتیجے میں 14 برس قیدِ بامشقت کی سزا پانے والے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے ہمدردی رکھتے تھے اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے۔
اپنے سیاسی تجزیے میں ایاز امیر کا کہنا ہے کہ فیض حمید کے خلاف اگرچہ ایک طویل چارج شیٹ موجود ہے، الزامات کی فہرست بھی دی گئی ہے اور مزید تحقیقات کے اشارے بھی دیے جا رہے ہیں، تاہم اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک زمانے میں آرمی چیف کی امیدوار تھے اور طاقت کے بڑے کھیل کا حصہ تھے، ان کی بدقسمتی کہ وہ اس کھیل میں ہار گئے اور اب اس ہار کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ایاز امیر کے بقول اگر قسمت فیض کا ساتھ دیتی تو آج کا سیاسی نقشہ یکسر مختلف ہوتا اور انصاف کے تقاضے بھی کسی اور انداز میں پورے ہوتے۔
ایاز امیر کے مطابق فیض حمید کے سرپرست تب کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ تھے، جنہوں نے اپنی دوبارہ ایکسٹینشن کے چکر میں فیض حمید کو بھی مروا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ خود تو تاریخ کے سائے میں گم ہو گئے لیکن جاتے جاتے فیض حمید کو بھی لپیٹ گئے۔ انکے مطابق بطور آرمی چیف جنرل باجوہ تین سالہ مدت پوری کرنے کے بعد تین سال کی توسیع لینے میں کامیاب ہوئے، اس کے باوجود وہ مزید تین سال کی توسیع کے خواہاں تھے اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
ایاز امیر کے مطابق جنرل باجوہ نے عمران کا ساتھ چھوڑ کر نئی حکومت سے ایکسٹینشن کی امید لگائی۔ لیکن وہ یہیں غلطی کر گئے کیونکہ انہیں مزید توسیع صرف عمران خان کے ذریعے مل سکتی تھی لیکن تحریک عدم اعتماد کے عمل میں جنرل باجوہ نے خان کا ہاتھ چھوڑ دیا، یوں نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو گئی بلکہ جنرل باجوہ خود بھی فارغ ہو گئے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ عمران خان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد جنرل باجوہ کی قسمت کا فیصلہ شریف خاندان کے ہاتھ میں آ گیا، کیونکہ رجیم چینج کے نتیجے میں بادلِ نخواستہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا پڑا۔ ان کے بقول اپنی تمام تر سیاسی چالاکی کے باوجود جنرل باجوہ یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ عمران کے جانے کے بعد سارا کھیل ہی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا، اور پھر ان کے ساتھ وہ ہوا جس کا شاید انہیں بھی اندازہ نہیں تھا۔
فیض حمید پر سیاسی سازشوں کے الزامات کے حوالے سے ایاز امیر کہتے ہیں کہ ان کا ذاتی مشاہدہ اس بیانیے سے مختلف ہے۔ انہوں نے چکوال میں فیض حمید کی فیملی کی ایک شادی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ایک موقع پر فیض حمید نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کی عمران خان سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ پیغام دیا کہ عمران خان کو آرمی چیف پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ ایاز امیر کے مطابق اگر کسی کے ارادے واقعی سیاسی گڑبڑ کے ہوں تو وہ ایسی بات نہیں کرتا۔
ایاز امیر لکھتے ہیں کہ پاک فوج کا ادارہ جاتی ماحول ایسا ہے کہ اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے والے افسران بخوبی جانتے ہیں کہ چین آف کمانڈ کیا ہوتی ہے اور چیف کی مرضی کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق فیض ایک سمجھدار افسر تھے، فوج کے مزاج سے واقف تھے اور انہیں کسی غیر سنجیدہ یا فضول کارروائی سے جوڑنا ان کے لیے قابلِ یقین نہیں۔
تاہم ایاز امیر کے مطابق فیض حمید نے اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کیں۔ بطور ڈی جی آئی ایس آئی وہ عمران خان کے قریب رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ان کے بقول فیض کا اصل قصور یہی تھا۔ اگر فیض حمید توبہ تائب ہو جاتے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق عمران مخالف رویہ اختیار کر لیتے تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ انکے مطابق پاکستان میں انصاف کے عملی تقاضے سب پر واضح ہیں۔ یہاں ناقابلِ معافی جرم سرکشی اور نافرمانی سمجھے جاتے ہیں، چاہے وہ محض شبہ کی حد تک ہی کیوں نہ ہوں، جبکہ دیگر معاملات قابلِ چشم پوشی سمجھے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلائے جارہے ہیں: طلال چوہدری
کیپٹن ریٹائیرڈ ایاز امیر بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں انہوں نے بھی چکوال سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر ایم این اے کا الیکشن لڑا تھا۔ ان کے مطابق اس انتخابی عمل میں فیض حمید کی فیملی نے کھل کر ان کی حمایت کی، اگرچہ فیض حمید اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے لیکن وہ خود کسی جلسے میں شریک نہیں ہوئے۔ ان کے بقول فیض خاندان کی سیاسی وابستگی واضح طور پر تحریک انصاف کے ساتھ تھی، جسے موجودہ حالات میں ایک ناقابلِ معافی گناہ سمجھا جاتا اور بنیادی طور پر اسی وجہ سے فیض حمید کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔
ایاز امیر کے مطابق 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں سے فیض حمید کو جوڑنے کے لیے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے، تاہم بعض سیاسی شخصیات کی جانب سے محض امکانات کی بنیاد پر الزامات عائد کیے جاتے رہے۔ ایاز امیر کہتے ہیں کہ فیض حمید کو دی جانے والی سزا ایک واضح پیغام ہے کہ بڑے دربار میں فیض جیسوں کے لیے نرمی کی کوئی گنجائش نہیں، تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر سختیوں اور سزاؤں کے باوجود عمران کا سیاسی طلسم ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس عمران خان کے لیے فیض حمید نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا آج تحریک انصاف اس کے ساتھ کھڑی ہونے سے انکاری ہے۔
