عمران، فیض اور باجوہ جنرل عاصم کا راستہ روکنے میں کیسے ناکام ہوئے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نومبر 2023 میں اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں جس دھرنے کا اعلان کیا گیا تھا اسکا بنیادی مقصد جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے رکوانا تھا حالانکہ وہ سینئیر ترین جرنیل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت نہ صرف جنرل فیض حمید آرمی چیف بننے کی کوشش میں تھے بلکہ جنرل قمر باجوہ بھی اپنے عہدے میں توسیع چاہتے تھے۔ لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے ماسٹر سٹروک کھیلتے ہوئے جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کا اعلان کر دیا اور یوں فیض اور باجوہ دونوں کی گیم اوور ہو گئی۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ جنرل عاصم کی تقرری رکوانے کے لیے عمران خان بڑے دھوم دھڑکے سے جنگی ترانے بجاتے ہوئے راولپنڈی پہنچے تھے اور یہ منصوبہ انہیں فیض نے بنا کر دیا تھا۔ بظاہر تو وہ شہباز شریف کی حکومت گرانے آئے تھے لیکن اصل مقصد جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری رکوانا تھا۔ جنرل عاصم منیر کی مدت ملازمت 27 نومبر 2022ء کو ختم ہونے والی تھی اور عمران خان نے 26 نومبر کو اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں دھرنے کا اعلان کردیا تھا۔ دوسری طرف جنرل قمر باجوہ بطور آرمی چیف اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے کوشش میں مصروف تھے اور نئے آرمی چیف کی تقرری کیلئے جی ایچ کیو کی طرف سے وزارت دفاع کو نام نہیں بھجوائے جارہے تھے۔ وزارت دفاع نے یہ نام وزیراعظم کو بھجوانے تھے اور وزیراعظم نے ان ناموں میں سے کسی ایک کو نیا آرمی چیف بنانا تھا۔ جنرل باجوہ اپنی توسیع کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے تھے اور کور کمانڈر بہاولپور جنرل فیض حمید نیا آرمی چیف بننے کیلئے شہباز شریف کی باقاعدہ منت سماجت کر رہے تھے۔ ایک موقع پر تو فیض حمید نے وزیر اعظم کو پیغام بھجوایا کہ آپ عاصم منیر کو بھول جائیں کیونکہ وہ تو ریس میں ہی نہیں ہے اس لئے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری 29 نومبر کو ہونی ہے اور عاصم منیر نے 27 نومبر کو ریٹائر ہو جانا ہے۔ لیکن ایک کور کمانڈر کی طرف سے آرمی چیف بننے کیلئے اس لابنگ نے وزیر اعظم کو اس نتیجے پر پہنچا دیا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا غیرعلانیہ الائنس ٹوٹ چکا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی کوشش تھی کہ جی ایچ کیو سے آنے والی سمری میں جنرل عاصم منیر کا نام شامل ہو جائے۔ عاصم منیر فوج کے سینئر ترین جرنیل تھے لیکن باجوہ ان کا نام ڈراپ کرنے کی کوشش میں تھے۔ آخر کار خواجہ محمد آصف فوج کے سینئر ترین جرنیل کا نام وزیر اعظم کو بھجوائی جانے والی سمری میں شامل کرانے میں کامیاب ہوگئے لیکن کور کمانڈر بہاولپور جنرل فیض حمید نے تحریک انصاف میں اپنے تعلقات کو استعمال کرکے 26 نومبر کو راولپنڈی میں دھرنے کا اعلان کرا دیا۔
فیض حمید کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی کشتی ڈوبنے لگی
حامد میر کے مطابق عمران خان کو پیغام بھجوایا گیا کہ عاصم منیر کا نام لے کر ان کی مخالفت کرو۔ لیکن اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے مشورے سے ایک ماسٹر اسٹروک کھیلا۔ جب انہیں جنرل باجوہ کی جانب دے مارشل لا لگانے کی دھمکی دی گئی تو انہوں نے آصف زرداری اور نواز شریف کے مشورے سے 26 نومبر سے قبل ہی نئے آرمی چیف کی تقرری کے اعلان کا فیصلہ کرلیا۔ شہباز شریف نے 24 نومبر کوجنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کا اعلان کیا تو فیض حمید صدمے سے اپنی کرسی پر گر گئے۔ انہوں نے عمران کو پیغام بھیجا کہ وہ صدر عارف علوی کے ذریعہ عاصم منیر کے نام کو مسترد کر دیں۔ دوسری جانب عارف علوی کو اسلام آباد سے عمران خان کے پاس بھیجا گیا، یوں عمران نے بادل نخواستہ عاصم منیر کی تقرری پر رضا مندی کا اظہار کردیا حالانکہ یہ کوئی آئینی ضرورت نہیں تھی۔
حامد میر کہتے ہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے پاس آرمی چیف کی تقرری کے لیے جو سمری آئی تھی اس میں پہلے نمبر پر عاصم منیر تھے جو آرمی چیف بن گئے۔ دوسرے نمبر پر ساحر شمشاد تھے وہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بن گئے۔ اظہر عباس تیسرے نمبر پر تھے انہوں نے 25 نومبر کو ہی قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ فیض حمید پانچویں نمبر پر تھے لیکن انہوں نے اظہر عباس کی طرح قبل از وقت ریٹائرمنٹ نہ لی۔ فیض نے 26 نومبر کے دھرنے کا انتظار کیا۔ لیکن جب عمران خان راولپنڈی پہنچے تو سٹریٹ پاور نہ دکھا سکے لہٰذا اسلام آباد کی طرف مارچ کے اعلان کی بجائے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں ختم کرنے کا اعلان کرکے واپس لاہور چلے گئے۔ خان صاحب کے اس اعلان نے جنرل فیض کی بہت حوصلہ شکنی کی لیکن انہوں نے تحریک انصاف جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما سے کہا کہ فکر نہ کرو میری بندوق میں بہت گولیاں باقی ہیں۔
حامد میر کہتے ہیں کہ تب مجھے اندازہ نہیں تھا کہ فیض دوسروں کو سوئے دار تک پہنچانے کی کوشش میں خود ہی اس مقام تک پہنچ جائیں گے۔ عمران خان کی طرف سے دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کےبعد فیض حمید کئی دن تک سیاسی بحران میں مزید شدت پیدا ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور شہباز شریف کے ساتھ ساتھ جنرل عاصم منیر کو بھی استعفیٰ دینا پڑےگا لیکن ہمیشہ کی طرح ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی کیونکہ ان کی اکثر خواہشات ان کے قد سے بہت بڑی ہوتی تھیں لہٰذا انہوں نے ٹوٹے ہوئے دل کیساتھ 8 دسمبر 2022 کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔