عمران اپنے مخالفین کے لیے کھودے گئے گڑھے میں خود کیسے گر گئے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کا روؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ بچپن میں اردو کی درسی کتب میں ایک محاورہ پڑھا تھا کہ جو گڑھا آپ دوسروں کے لیے کھودتے ہیں آخر کار اس میں آپ خود ہی گرتے ہیں۔ مجھے ویسے اس محاورے کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب آپ کو علم ہے کہ فلاں گڑھا آپ نے دشمن یا مخالف کیلئے کھودا ہے تو اس میں آپ خود کیوں گر جاتے ہیں۔ میرا دماغ اس کشمکش میں رہتا تھا۔ یہ بات اب مجھے سمجھ آرہی ہے جب میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو سوشل میڈیا کا قیدی بنتے دیکھتا ہوں۔

اپنی تازہ تحریر میں روؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے تمام سیاسی جماعتوں‘ مخالفین اور تنقید کرنے والے میڈیا پرسنز کو اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے نتھ ڈال رکھی تھی۔ اب اگر پی ٹی آئی کے چند بڑے لیڈروں کی باتیں سنیں تو اندازہ ہو گا کہ سوشل میڈیا نے کیسے خود پی ٹی آئی کو جکڑ لیا ہے۔ اب فواد چودھری بھی عمران خان کو بتاتے پائے جاتے ہیں کہ ان کی پارٹی کا سب سے بڑا دشمن اس وقت اور کوئی نہیں‘ بلکہ خود ان کا پیدا کردہ سوشل میڈیا کا جن ہے۔ اب فواد چودھری کہتے ہیں کہ خان صاحب اس جن کو واپس بوتل میں ڈال کر فوج سے صلح کی کوشش کریں۔ فواد کا مشورہ اپنی جگہ لیکن کیا کریں‘ ہزاروں سال سے پرانے قصے کہانیوں میں ایک ہی بات سنتے آئے ہیں کہ جو جن ایک دفعہ بوتل سے نکل جائے وہ واپس بوتل میں بند نہیں ہوتا۔

190 ملین پاؤنڈز کیس کا فیصلہ آنے تک مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ

آخرکار پی ٹی آئی کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ سوشل میڈیا ان کی سیاست کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے چند رہنما خود اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں۔ تازہ ترین اعتراف سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کیا ہے جنہوں نے عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے دوران انہیں بتایا کہ ف3ج اور ان کے درمیان تعلقات نارمل نہ ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ سوشل میڈیا ہے‘ اگر آج خان اور فوج کے درمیان تعلقات خراب ہیں تو اس میں بڑا ہاتھ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل کا ہے۔ اس سارے پراسیس کو ریورس کرنے کی ضرورت ہے‘ خصوصاً عمران خان کا ٹویٹر ہینڈل‘ جسے پاکستان سے باہر بیٹھے کچھ لوگ چلا رہے ہیں اور وہ خان صاحب کے نام پران کے بیانات ٹویٹ کرتے رہتے ہیں۔

روؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ میڈیا کی پیداوار فواد چوہدری نے عمران خان دور میں وفاقی وزیر اطلاعات بن کر میڈیا کے ساتھ جو کچھ کیا وہ افسوسناک تھا۔ جس میڈیا کی وجہ سے وہ پہلے جنرل مشرف‘ پھر آصف زرداری‘ بلاول بھٹو‘ یوسف رضا گیلانی اور آخر میں عمران خان کی نگاہوں میں آئے تھے انہوں نے اسی کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت اور ایمانداری سب کو اپوزیشن میں رہ کر یاد آتی ہے۔ جب مکافات عمل کے اصول کے تحت جوتے کھانے کی اپنی باری آتی ہے تب فواد چودھری جیسے لوگ ہمیں جمہوریت‘ برداشت اور ڈائیلاگ کی اہمیت بتانے لگ جاتے ہیں جو یہ اپنے دور اقتدار میں بھلا چکے ہوتے ہیں۔ پھر یہ ہمیں ملک اور جمہوریت کی خاطر سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی افادیت سمجھاتے ہیں۔ تب ایسا لگتا ہے کہ ان سے بڑا جمہوریت پسند شاید ہی پیدا ہوا ہو۔ لیکن جونہی انہیں اقتدار ملتا ہے تو ان کا سارا غرور اور تکبر واپس آجاتا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا کہ اس بات پر خوش ہوا جائے یا افسوس کیا جائے۔

Back to top button