عمران نے عیار میکاولی اور شاطر چانکیہ کو پیچھے کیسے چھوڑ دیا ؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں فتنہ اور فساد کی بنیاد رکھنے والے عمران خان نے مکر و فریب اور شر پسندی میں اچاریہ رشی کے مکار بیٹے وشنو گپت عرف چانکیہ کو بھی مات دے دی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ٹیکسلا میں جنم لینے والا وشنو گپت بعد میں چانکیہ کے نام سے مشہور ہوا اور چندر گپت موریا کے اتالیق کی حیثیت سے ارتھ شاستر جیسی کتاب لکھی۔ چانکیہ کی مجموعی شہرت ایک شاطر دانشور کی ہے جس کا نام آتے ہی ذہن فریب کاری، عیاری اور حیلہ گری کی طرف چلا جاتا ہے۔ مثلاً خارجہ امور کے حوالے سے اس کا نظریہ یہ تھا کہ پڑوسی ملکوں کو ہمیشہ دشمن سمجھو اور پڑوسی ممالک کے پڑوسیوں کو اپ ا دوست جانو، یعنی دشمن کا دشمن تمہارا ساتھی ہونا چاہیے۔ عمران خان بھی پاکستانی فوج اور ریاست پاکستان کے حوالے سے کچھ ایسی ہی پالیسی لے کر چل رہے ہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں بلال غوری کہتے ہیں کہ مکاری اور عیاری کے میدان میں ایک اور بڑا نام میکاولی کا ہے۔ اس اطالوی مفکر نے بدنام زمانہ کتاب ’’دی پرنس‘‘ لکھی۔ اسکا کہنا تھا کہ ایک کامیاب حکمران کو اپنے وعدے اور اعلانات نبھانے سے اگر کسی طرح کا سیاسی نقصان ہو رہا ہو تو اسے ہرگز اپنے الفاظ کی پاسداری نہیں کرنی چاہیے۔ اٹلی سے تعلق رکھنے والا میکاؤلی وہ پہلا سیاسی مفکر تھا جس نے سیاست کو اخلاقیات سے علیحدہ کر کے پیش کیا۔ اس کی توجہ کا مرکز غلط اور صحیح کے بجائے عملیت پسندی تھی۔ چنانچہ آج سولہویں صدی کا یہ دانشور اگر زندہ ہوتا تو انقلابی یوتھیوں کے کارواں میں شامل ہو کر قیدی نمبر 804 کے نعرے لگا رہا ہوتا کیونکہ عمران خان اسی کے نظریات کے امین ہیں اور اسی لیے مسٹر یو ٹرن خان کہلاتے ہیں۔
بلال غوری کے مطابق پاکستان میں روبوٹ ساز صنعت کی تاریخ اُتنی ہی پرانی ہے جتنا خود پاکستان۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان سے پہلے راولپنڈی اور آبپارہ کے خفیہ کارخانوں میں ایسے مصنوعی لیڈر پیدا نہیں کیے جاتے رہے؟ ضرورت پڑنے پر تو سیاسی ہی نہیں بلکہ مذہبی قسم کے روبوٹ بھی متعارف کروائے جاتے رہے ہیں لیکن اس بار ایسا شاہکار روبوٹ بنایا گیا کہ اس نے نہ صرف اپنے خالق کیخلاف بغاوت کردی بلکہ جاتے ہوئے وہ سب مہلک ہتھیار بھی اپنے ساتھ لے گیا جن سے مخالفین اور دشمنوں کو زیر کیا جاتا تھا۔ مثلاً کون غدار ہے اور کون محب وطن، یہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار اب اس روبوٹ ساز صنعت کی انتظامیہ کے پاس نہیں رہا۔ سیاست دان بدعنوان ہیں، یہ ملک لوٹ کر کھا گئے، انکا احتساب ہونا چاہئے، یہ نظام گل سڑ چکا، چہرے نہیں نظام بدلو، عام آدمی کو انصاف نہیں مل رہا، ہم امریکہ کے غلام نہیں، حقیقی آزادی حاصل کرنی ہے، نیا پاکستان بنانا ہے، پاکستان کو اللہ نے بے شمار وسائل سے نوازا ہے مگر یہ سیاسی جماعتیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، آپ سب کو اپنے حق کیلئے کھڑا ہونا ہوگا…. اس قسم کے سب دل فریب نعروں پر اب صرف عمران خان کی اجارہ داری ہے حالانکہ ماضی میں یہی سب کچھ فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے کہا کرتے تھے۔
بلوچستان لبریشن آرمی پاک چین تعلقات تباہ کرنے پر کیوں تلی ہے؟
بلال غوری کہتے ہیں کہ مذہب کارڈ بہت خطرناک ہتھیار ہوا کرتا تھا، مگر جب آپ کے ہاتھ میں تسبیح ہو، ریاست مدینہ کی بات کی جا رہی ہو، تقریر کا آغاز ایاک نعبدو سے کیا جائے تو پھر کون آپ پر اس طرح کی تہمت لگا سکتا ہے۔ پانچویں پشت کی دوغلی ابلاغی جنگ کےلیے جو سوشل میڈیا بریگیڈ تیار کیا گیا تھا ،اس میں شامل بیشتر رنگروٹ منحرف ہو گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین تعمیری صلاحیتوں کے مالک بیشک نہ ہوں مگر تخریب کاری کے میدان میں انکا کوئی ثانی نہیں۔ وہ فتنہ اور فساد برپا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ لغوی اعتبار سے تو فتنہ ابتلا و آزمائش کو کہا جاتا ہے۔ وہ بھٹی جس میں سونے اور چاندی کو پگھلا کر کثافتوں کو الگ کیا جاتا ہے، اسے بھی فتنہ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ جب سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا مشکل ہو جائے، جب کھرے اور کھوٹے کی پہچان مشکل ہو جائے، جب چور بھی چور چور کے نعرے لگانا شروع کردیں، جب فساد پھیلانے والے خود کو مصلحین کے روپ میں پیش کرنے لگیں، جب ضرورت پڑنے پر یہ ثابت کیا جاسکتا ہو کہ کوا سفید ہے، جب طلاقتِ لسانی کا یہ عالم ہو کہ شعلہ بیاں مقرر کاغذ سے آگ کو ڈھانپ دینے پر قادر ہوں تو سمجھ لیں کہ آپ پر فتن دور میں زندہ ہیں ۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ گزشتہ ماہ حکومت پاکستان نے تمام وزارتوں اور سرکاری محکموں کو خط لکھ کر احکامات جاری کیے تھے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کےلیے فتنہ الخوارج کی اصطلاح استعمال کی جائے۔ بعض روایات کے مطابق تو خوارج کی ابتدا حضور ﷺ کے دور سے ہی ہوگئی تھی جب ان شرپسندوں کے جد امجد تمیمی نے پیغمبر اسلام ﷺ سے گستاخی کی جسارت کی تھی۔ غوری تحریک انصاف کو تحریک طالبان پاکستان کا سیاسی ونگ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسکے بارے میں فتنہ یاجوج ماجوج کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔ وہ بتست ہیں کہ سائرس اعظم جن کا لقب ذوالقرنین تھا، دور میں پہاڑ کے پیچھے ایک ایسی قوم آباد تھی جو کسی معاملہ فہمی اور صلح جوئی کی قائل نہ تھی، ان شر پسندوں کو یاجوج ماجوج کا نام دیا گیا اورانہیں روکنے کیلئے ایک دیوار بنائی گئی۔ جس طرح عمران خان کے پیروکار شرپسندوں کو اسلام آباد پر دھاوا بولنے سے روکنے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، اسی طرح یاجوج ماجوج کے شر سے بچنے کےلیے بھی حفاظتی انتظامات کیے جاتے تھے۔ چنانچہ اس فتنے کا خاتمہ پاکستان کی بقا کےلیے ضروری ہے۔