عمران کے فوج مخالف ٹویٹ نے مذاکراتی عمل کیسے تارپیڈو کیا ؟

تحریک انصاف کی خواہش پر حکومت کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکراتی عمل کے دوران عمران خان کی فوج مخالف ٹویٹ کا اصل مقصد تو اسٹیبلشمنٹ پر رہائی کے لیے دبائو ڈالتے ہوئے خود کو فیس سیونگ فراہم کرنا تھا۔ تاہم اس ٹویٹ کا الٹا اثر ہوا اور فوجی قیادت کے سخت ردعمل کی وجہ سے سارا مذاکراتی عمل ہی تارپیڈو ہو گیا۔

باخبر حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکراتی عمل کے پہلے دور میں ہی دونوں فریقین میں طے پا گیا تھا کہ ان کے ایجنڈے پر کسی قسم کا این ار او نہیں ہو گا۔ لیکن مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کے بعد جب پی ٹی آئی کی ٹیم کا عمران سے رابطہ کروایا گیا تو سارا معاملہ ہی بگڑ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومتی ٹیم کو سمجھ آگئی کہ مذاکرات کا عمل دراصل ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت شروع کیا گیا ہے اور وہ ہے اڈیالہ جیل سے عمران خان کی رہائی۔ تاہم تحریک انصاف والوں نے میڈیا کے سامنے یہی موقف رکھا کہ بانی پی ٹی آئی اپنے کارکنان کی رہائی چاہتے ہیں۔

حکومتی ذرائع کا دعوی ہے کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے عمران کی جیل سے رہائی کا مطالبہ کر ڈالا۔ اس پر حکومت کی جانب سے صاف جواب دیا گیا کہ پاکستان بھی آئین اور قانون کے تحت چلتا ہے اور کسی بھی قیدی کو رہائی تب ہی ملتی ہے جب عدلیہ اسے بے گناہ قرار دے، لہٰذا عمران خان کو بھی عدالتی عمل کے ذریعے انصاف ملنے کا انتظار کرنا ہو گا۔ تاہم جب پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم نے اپنے مطالبے پر اصرار کیا تو حکومتی ٹیم نے اس سے مطالبات تحریری صورت میں مانگ لیے۔  یہ وہ سٹیج تھی جب عمران خان نے فوجی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ایک ٹویٹ داغ دی جس نے پورا مذاکراتی عمل ہی تارپیڈو کر دیا یے۔

پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک تو مذاکراتی کمیٹی عمران خان کی یرغمالی تھی اور اس کے پاس بانی کی مرضی کے بغیر کوئی معاہدہ کرنے کا اختیار نہیں تھا، دوسرا عمران کی جانب سے وزیراعظم اور آرمی چیف پر تنقیدی ٹوئیٹ نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ یوں مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو گیا اور اب اگے بڑھتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ خود مذاکراتی کمیٹی کے زیادہ تر اراکین بھی عمران خان کے رویے سے مایوس ہیں اور اسی لیے ڈیڑھ سال میں پہلی مرتبہ اس ہفتے ان سے ملاقات کرنے کے لیے کوئی بھی پارٹی لیڈر اڈیالہ جیل نہیں گیا۔

مذاکرات کرنے والی حکومت کی ٹیم کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کے مطابق انہیں اب تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ عین مذاکراتی عمل کے دوران عمران نے فوج اور وزیراعظم کے خلاف اتنا سخت اور اتنا تلخ ٹوئیٹ کیوں کیا؟

عمران خان نے نہ صرف فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ملک توڑنے کا ذمہ دار قرار دیا بلکہ شہباز شریف کو فوج کا اردلی قرار دے ڈالا۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر حمود الرحمان کمیشن یاد دلایا، ملک توڑنے والے جنرل یحییٰ خان کا حوالہ دیا، اور موجودہ صورتحال کو یحییٰ خان کے دور سے تشبیہہ دے ڈالی، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف دراصل جنرل عاصم منیر کی کٹھ پتلی ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی اپنی وزارت عظمی کے دوران تب کی اپوزیشن بھی انہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوا کی کٹھ پتلی قرار دیتی تھی اور وہ اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پاک فوج کی کٹھ پتلی ہوں، کوئی بھارتی فوج کی نہیں۔

مسلم لیگی سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ عمران خان کا ٹویٹ نہ صرف مذاکراتی عمل پر مہلک حملہ ثابت ہوا بلکہ اس نے حکومتی مذاکراتی ٹیم کی کوششوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے، اس طرح کی عامیانہ باتیں کسی کارکن کی طرف سے تو کی جا سکتی ہے لیکن عمران خان  کی طرف سے عین مذاکراتی عمل کے دوران ایسا بےہودہ ٹویٹ سمجھ سے بالاتر ہے۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھی اس کا دفاع بھی کر رہے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کا آغاز بھی عمران کے اصرار پر ہوا، ان کی طرف سے 5؍ دسمبر کو مذاکراتی کمیٹی بنی، اب اگر عمران خان خود ہی ایسے بے ہودہ کے ٹویٹ کریں گے تو اس کا کیا مطلب لیا جائے؟

عرفان صدیقی نے کہا کہ تصور کریں اگر ایسا ٹویٹ وزیراعظم، صدر زرداری، بلاول بھٹو یا نواز شریف کی طرف سے آتا تو پی ٹی آئی کیا قیامت کھڑی کر دیتی؟ وہ ہرگز مذاکرات جاری نہ رکھتی اور اس عمل کا ہی بائیکاٹ کر دیتی۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپ کسی شخص کا گریبان پکڑ کر اسے گالی گلوچ کرنے کے بعد جواب میں یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ آپ سے بات چیت کرنے پر آمادہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے ٹوئیٹس مذاکراتی عمل کیلئے بڑا خطرہ ہیں اور یہ بند نہ ہوئے تو مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ سرکردہ رہنما بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو چلائے جانے کے انداز سے خوش نہیں ہیں۔  یہ رہنما عمران خان کی عسکری قیادت پر مسلسل تنقید اور پارٹی کے سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے پر زیادہ پریشان ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایسے رہنماؤں میں یہ احساس ہے کہ اگر عمران خان فوج کی اعلیٰ کمان پر تنقید بند نہیں کرتے تو کوئی مذاکراتی عمل کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ پارٹی کو سیاسی جگہ ملے گی۔ پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں کچھ رہنماؤں نے یہ مسئلہ عمران خان کے ساتھ بھی اٹھایا تھا اور انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی ایک ٹیم کو عمران خان اور پارٹی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ہینڈل کرنے دیں۔ لیکن عمران خان نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ حال ہی میں اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ انہوں نے عمران سے کہا کہ پی ٹی آئی کو افراد کی بجائے مسائل پر توجہ دینے اور فوج اور اس کی اعلیٰ کمان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاست میں منصفانہ جگہ ملے۔

شہباز کو فوج کا اردلی کہنے والے عمران کس جرنیل کو باپ کہتے تھے؟

فواد کا کہنا تھا کہ انہوں نے عمران خان سے پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے بیرون ملک سے اپنے ایکس اکاؤنٹ کا کنٹرول پاکستان واپس لانے کو بھی کہا۔ فواد کا موقف تھا کہ عمران کا ایکس اکاؤنٹ مسلسل آرمی چیف اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کیلئے استعمال ہو رہا ہے اور اگر عمران مذاکرات کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔ تاہم انہوں نے اس مشورے پر عمل کرنے کی بجائے ایک اور فوج مخالف ٹویٹ کر ڈالا جس نے پورا مذاکراتی عمل ہی تارپیڈو کر ڈالا ہے۔

Back to top button