انٹیلی جنس بیورو کپتان حکومت بچانے میں کیسے ناکام ہوا؟
پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سیاست میں مکمل نیوٹرل ہونے کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کا ٹاسک اپنی زیر نگرانی کام کرنے والی سویلین خفیہ ایجنسی انٹیلی جنس بیورو کے ذمے لگایا گیا تھا جسے چند اہم ریٹائرڈ فوجی افسران کی مدد بھی حاصل تھی، تاہم بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آئی بی یہ ٹاسک انجام دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے اور اب کپتان حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سیاسی وفاداریاں بدلنے والے اراکین قومی اسمبلی کو واپس لانے کا ٹاسک دیا گیا تھا، اس کے علاوہ انٹیلی جنس بیورو کے اعلی حکام اتحادی جماعتوں کی قیادت کی بھی مسلسل مانیٹرنگ کر رہے تھے لیکن اس سب کے باوجود سیاسی پرندے سویلین ایجنسی کا دباؤ لینے سے انکاری رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز پہلے دو بڑی اتحادی جماعتیں اور دو درجن سے زائد اراکین قومی اسمبلی وزیراعظم عمران خان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔
یاد رہے کہ انٹیلی جنس بیورو براہ راست وزیر اعظم کے ماتحت کام کرتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے زمانے تک آئی بی اتنی متحرک نہیں تھی چونکہ کپتان حکومت کا سیاسی انجینئرنگ کا ایجنڈا آئی ایس آئی سر انجام دیتی تھی۔ لیکن فیض حمید کے پشاور تبادلے کے بعد عمران خان آئی ایس آئی کے فیض سے محروم ہو گئے کیونکہ نئے چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے ایجنسی کو مکمل غیرسیاسی کرنے کے فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ وزیر اعظم نے سیاسی انجینئرنگ کی ساری ذمہ داری انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ڈاکٹر محمد سلیمان کے حوالے کر دی تھی۔
یاد رہے کہ انٹیلی جنس بیورو کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوتا ہے جس کی تقرری وزیر اعظم کے مشورے پر صدر کرتا ہے۔ ڈی جی آئی بی عام طور پر سول بیورو کریسی یا پولیس سے لیا جاتا ہے۔ آئی بی کا کام سیاست دانوں کی جاسوسی کرنا، حکومتی ذمے دوران کی کارگزاری اور تعلقات پر نظر رکھنا، مشتبہ افراد پر نظر رکھنا، میڈیا کو مانیٹر کرنا، اور فرقہ وارانہ عناصر اور دہشت گردوں پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔
تاہم لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے تبادلے کے بعد انٹیلی جنس بیورو کو سیاسی انجینئرنگ کا ٹاسک دیا گیا تھا، بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں اسے چند ریٹائرڈ فوجی افسران کی مدد بھی حاصل تھی جو ایک سابق آئی ایس آئی سربراہ کی منظور نظر تھے۔ تاہم عمران خان کا یہ تجربہ مکمل طور پر ناکام ہوا ہے کیونکہ جن سیاستدانوں کو آئی ایس آئی کے ذریعے ہینڈل کیا جاتا تھا وہ انٹیلی جنس بیورو کے ذریعے ہینڈل ہونے سے انکاری رہے۔
بقول شخصے اس معاملے میں بھی ایک مرتبہ پھر ثابت ہوا کہ بلڈی سویلینز بالآخر بلڈی سویلینز ہی ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیر اعظم بظاہر قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے ہیں اور اب پوزیشن کے حمایتی اراکین کی تعداد 177 ہو چکی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے لیے وزیر اعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنا ممکن نہ ہوتا اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا۔ حزب اختلاف والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد داخل کروانے کے بعد ان کے سیاسی داؤ پیج کاؤنٹر کرنے کے لیے انٹیلی جنس بیورو تو متحرک تھا لیکن آئی ایس آئی کے کسی افسر کی جانب سے کسی سیاستدان کو کوئی فون نہیں گیا جیسا کہ فیض حمید کے زمانے میں ہوتا تھا۔
لیکن اپوزیشن حلقوں کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہو جانے کی وجہ سے انہیں اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے کافی زیادہ زور لگانا پڑا چونکہ ماضی میں تو ایک ایسی طاقت موجود تھی جو گارنٹی دے دیا کرتی تھی کہ تبدیلی بھی سو فیصد آئے گی اور اس عمل میں ساتھ دینے والوں کا نقصان بھی نہیں ہو گا۔ تاہم اس دفعہ صورت حال مختلف تھی کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا کوئی ضامن موجود نہیں تھا۔
اسی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ق لیگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی نے طے کیا تھا کہ اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے یہ سب مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں گے۔ لیکن عسکری سر پرست کی غیر موجودگی میں ایسا نہ ہو سکا اور اتحادی جماعتیں انفرادی فیصلے کرنے پر مجبور ہوگئین۔ بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان اتحادی جماعتوں کے قائدین حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے اور آخری لمحات تک کسی فون کال کے انتظار میں رہے۔
اس دوران جب قاف لیگ نے اپوزیشن کے ساتھ معاملات فائنل کر لیے تو چوہدری پرویز الہی کو ایک ایجنسی سے تعلق رکھنے والے فوجی افسر کی فون کال موصول ہو گئی جس پر وہ بھاگتے ہوئے عمران خان کے پاس بنی گالہ جا پہنچے اور اپنے سیاسی کیریئر کا سب سے غلط فیصلہ کر بیٹھے۔ لیکن ڈیل کرنے کے بعد پتہ چلا کہ فون کرنے والا شخص تو ایک ریٹائرڈ افسر تھا جس نے باجوہ صاحب کا نام استعمال کیا، یوں گجرات کے چوہدری کے ساتھ ضامن کے نام پر دھوکا ہو گیا اور وہ نہ گھر کا رہا اور نہ ہی گھاٹ کا۔
اس فون کال کی کہانی کچھ یوں بیان کی جا رہی ہے کہ چوہدریوں اور اپوزیشن کی ڈیل کا اعلان ہونے سے چند گھنٹے پہلے اسلام آباد سے ایک غیر سیاسی شخص نے پرویز الہیٰ کو کال کی اور بتایا کہ باجوہ صاحب ابھی وزیراعظم ہاؤس سے نکلے ہیں۔ ان کے وزیراعظم سے معاملات طے ہو گے ہیں اور باجوہ صاحب کا پیغام ہے کہ آپ وزیراعظم سے ملیں اور اپنے معاملات بھی فائنل کر لیں
شاہ محمود قریشی اہم اجلاس میں شرکت کیلئے چین روانہ
اسی صبح عثمان بزدار کیخلاف تحریک عدم اعتماد بھی پیش ہو چکی تھی ا
ور عمران پنجاب کی حکومت بچانا چاہتے تھے۔ شجاعت نے پرویز الہی کو بنی گالہ جانے سے منع کیا لیکن وہ ایسا کرنے پر مصر تھے۔ جانے سے پہلے چوہدری شجاعت نے پرویز سے کہا کہ آپ نے صرف عمران کی بات سننی ہے اور کوئی وعدہ نہیں کرنا کیونکہ ہمارے معاملات اپوزیشن کے ساتھ طے ہو چکے ہیں۔ تاہم کرسی کے لالچ میں پرویز الہی نے عمران سے ڈیل کر لی اور اپنی زندگی کا سب سے بڑا سیاسی بلنڈر کر بیٹھے۔
بعد میں پتہ چلا کہ پرویز کو فون کر کے بنی گالا بلوانے والا ایک ریٹائرڈ فوجی افسر تھا جس نے باجوہ اور عمران ملاقات بارے جھوٹ بولا اور انہیں باجوہ صاحب کا جھوٹا پیغام بھی دیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ باجوہ صاحب کا نام استعمال کرنے پر اس ریٹائرڈ فوجی افسر کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور انکوائری شروع کر دی گئی۔
How did intelligence bureau captain fail to save the govt? ] video in Urdu