12 اکتوبر کو مشرف کیسے اقتدار پر قابض ہوا؟
کسی سنسنی خیز فلم کی طرح دیکھنے والے کے اعصاب کو مسلسل تناؤ میں رکھنے والے اُن واقعات کا آغاز شام پانچ بجے ٹیلی ویژن کے ایک خصوصی نیوز بلیٹن سے ہوا۔رات ایک بج کر چالیس منٹ پر یہ فلم اپنے نقطہ عروج پر اس وقت پہنچی جب جنرل پرویز مشرف کیمرے کے سامنے آئے۔
اُس وقت وہ شدید اعصابی تناؤ کا شکار دکھائی دیے، چنانچہ کیمرے بند کرکے انہیں جُوس پیش کیا گیا اور مشورہ دیا گیا کہ کچھ دیر وہ آرام کر لیں۔ یہ واقعات 12 اکتوبر 1999 کے ہیں جب پاکستان اچانک ایک ایسے دوراہے پر جا کھڑا ہوا جب تاریخ میں پہلی بار اختیار نہ کسی آرمی چیف کے ہاتھ میں تھا اور نہ راولپنڈی کور اور اُس کے ٹرپل ون بریگیڈ کے جو ہمیشہ ایسے مواقع بروئے کار لا کر ایک نئے دور کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اِس بار ترپ کا یہ پتہ کراچی کور اور اس کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مظفر عثمانی کے ہاتھ میں تھا، جو چاہتے تو پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ بھی کر سکتے تھے۔
پاکستان ٹیلی ویژن نے جب یہ اطلاع نشر کی کہ وزیر اعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کو ریٹائر کر کے جنرل ضیا الدین کو یہ منصب سونپ دیا ہے تو پاکستان کے عوام اور خاص طور پر ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی بہت سی فوجی چھاؤنیوں میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی اور سینئر فوجی افسران ایک دوسرے سے رابطے میں مصروف ہو گئے کہ اب کیا کرنا ہے؟
اس موقع پر کی جانے والی ٹیلی فون کی چند کالز ایسی ہیں جنہوں نے حالات کو واضح رُخ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کراچی کے ڈائریکٹر کرنل اشفاق حسین نے اپنی کتاب ’جنٹلمین استغفراللہ‘ میں ان رابطوں کی تفصیل بیان کی ہے۔ واقعات کی ترتیب کے اعتبار سے پہلا فون فائیو (کراچی) کور کے چیف آف اسٹاف بریگیڈیئر طارق سہیل نے کور کمانڈر جنرل عثمانی کو کیا جنہوں نے اپنے باس کو فوج کی کمان میں کی جانے والی تبدیلی سے آگاہ کیا۔ بریگیڈیئر طارق کو یہ اطلاع ٹیلی ویژن سے ملی تھی۔ جنرل عثمانی کو دوسرا فون وزیر اعظم ہاؤس سے کسی نے کیا جس میں انہیں بتایا گیا کہ وزیر اعظم کو آپ کے علیل بیٹے کی صحت کے بارے میں بہت تشویش ہے اور اگر آپ چاہیں تو علاج کےلیے اسے بیرون ملک بھجوایا جاسکتا ہے۔ جنرل عثمانی کو تیسرا فون چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل محمود نے کیا اور اُن سے مشورہ چاہا کہ اب کیا کیا جائے؟ مسلح افواج کے ان دونوں ذمہ داران کے درمیان ہونے والی بات چیت مختصر لیکن واضح تھی جس کے بعد جسے بھی جو کرنا تھا، اس کے ذہن میں کوئی ابہام باقی نہ رہا۔اس فون کال کے دوران جنرل عثمانی نے جنرل محمود سے سوال کیا: کیا ایسی صورت حال کے بارے میں جنرل مشرف نے کچھ ہدایات دی تھیں؟
جنرل محمود: جی۔جنرل عثمانی: بس تو پھر ان ہدایات پر عمل کیا جائے۔
جنرل عثمانی اور جنرل محمود کے درمیان ہونے والے اس مکالمے سے اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ فوج اقتدار سنبھالنے کےلیے تیار نہ تھی۔ اس سلسلے میں جنرل مشرف کے کئی بیانات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اپنی کتاب ’سب سے پہلے پاکستان‘ میں بھی انہوں نے کچھ اسی قسم کی بات کی ہے لیکن اسی کتاب میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل عزیز جانتے تھے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ جنرل شاہد عزیز کو کیا کرنا تھا، اس کی تفصیلات انہوں نے اپنی کتاب ’یہ خاموشی کہاں تک‘ میں بیان کی ہیں اور لکھا ہے کہ نہایت احتیاط سے پورا منصوبہ تیار کر لیا گیا تھا جس کی تفصیلات قابل اعتماد جرنیلوں کے لیپ ٹاپ میں بھی موجود تھیں۔ جنرل عثمانی کو چوتھا فون تھوڑی ہی دیر پہلے وزیر اعظم کی طرف سے نامزد کیے جانے والے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاالدین نے کیا جنہوں نے اپنے تقرر نیز نئی تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کے بعد انہیں ہدایت دی کہ وہ ایئر پورٹ پر جا کر جنرل مشرف کا استقبال کریں اور انہیں پورے احترام سے آرمی ہاؤس پہنچا دیں۔ یہ فون بند ہوا ہی ہو گا کہ فون کی گھنٹی ایک بار پھر بج اٹھی، اس بار دوسری طرف وزیر اعظم نواز شریف کے ملٹری سیکریٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال تھے۔
اُن کا پیغام مختصر اور واضح تھا کہ جنرل پرویز مشرف کو پروٹوکول دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ کہ انہیں آرمی ہاؤس میں محبوس کر دیا جائے۔ اوپر تلے ہونے والے ان رابطوں سے یہ تو واضح ہو گیا کہ آنے والے چند گھنٹوں میں جو کچھ بھی ہونا ہے، جنرل عثمانی کا کردار اس میں کلیدی ہے لیکن ایک ہی وقت میں متضاد اطلاعات، ہدایات اور خواہشات کے ہجوم میں خود جنرل عثمانی کے ذہن میں اس وقت کیا ہل چل مچ رہی ہو گی؟ اس کا ذکر کتاب میں نہیں ملتا، البتہ وہ ایک مختصر جملہ جو انہوں نے جنرل محمود سے کہا تھا، ان کے ذہن کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے، یعنی ’جنرل مشرف کی ہدایات پر عمل درآمد ہوگا۔‘ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے برعکس راولپنڈی میں لوگوں کا ذہن ابھی واضح نہیں تھا وہ خاص طور پر جنرل محمود کا جو جنرل مشرف کے کراچی میں اترنے اور ان کے مقدر کے فیصلے کے انتظار میں تھے۔ یہی وجہ رہی ہو گی کہ جب جنرل عثمانی نے جنرل محمود سے سوال کیا کہ انہوں نے اپنی طرف ست کیا اقدامات کیے ہیں تو انہوں نے نفی میں جواب دیا لیکن جب انہیں یقین آ گیا کہ جنرل عثمانی مکمل طور پر جنرل مشرف کے ساتھ ہیں اور حرکت میں آچکے ہیں تو وہ بھی متحرک ہو گئے۔ راولپنڈی اور کراچی کے درمیان رابطوں کے دوران ہی جنرل عثمانی ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ آئی جی سندھ رانا مقبول اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اکبر آرائیں وہاں پہلے ہی موجود تھے اور آپس میں محو گفتگو تھے۔
’ہمیں ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔‘ آئی جی نے اپنے نائب کو ہدایت کی۔
’میرا خیال ہے کہ یہ مناسب نہیں کیونکہ فوج کے دستے یہاں موجود ہیں،اس لیے خطرہ ہے کہ کارروائی کے دوران کہیں تصادم نہ ہو جائے۔‘ ڈی آئی جی نے مشورہ دیا۔ جنرل عثمانی کے کان میں جیسے ہی یہ مکالمہ پڑا وہ خاموشی سے وہاں سے ہٹ گئے۔
اس کا مقصد شاید یہ تھا کہ پولیس کے اعلیٰ حکام اسی تاثر میں رہیں کہ فوج کی بھاری تعداد یہاں موجود ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ اسی دوران انہوں نے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل افتخار سے فون پر رابطہ کر کے انہیں دستوں سمیت ایئر پورٹ پر جلد پہنچنے کی ہدایت کی۔ جنرل عثمانی ایئرپورٹ کے راستے میں بھی ایک بار رابطہ کرکے انہیں یہ ہدایت کر چکے تھے لیکن ان کی ابھی تک یہاں آمد نہیں ہو سکی تھی۔ جنرل عثمانی جنرل افتخار سے بات کرکے فوری طور پر ایئر ٹریفک کنٹرول پہنچ گئے۔ اسی دوران جنرل افتخار بھی وہیں پہنچ گئے۔ ایئرٹریفک کنٹرولر یوسف عباس نے جنرل افتخار کو بتایا کہ انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ جہاز کا رُخ نواب شاہ کی طرف موڑ دیا جائے۔
جنرل افتخار نے اپنا پستول نکال کر اُن کی گردن پر رکھا اور حکم دیا کہ وہ پائلٹ سے ان کی بات کروائیں۔ جنرل افتخار کے اسٹاف افسر نے جنرل عثمانی کو نواب شاہ والی اطلاع فراہم کی تو انہوں نے نواب شاہ رابطہ کرکے متعلقہ یونٹ کو وہاں پہنچنے کی ہدایت کی لیکن وہاں متعین فوجی دستوں اور ایئر پورٹ کے درمیان فاصلہ زیادہ تھا، اس لیے ان کا وہاں بروقت پہنچنا ممکن نہ تھا جب کہ پولیس کی بھاری جمعیت نواب شاہ ایئرپورٹ پر موجود تھی جسے ہدایت تھی کہ جیسے ہی طیارہ اترے پرویز مشرف کو گرفتار کر لیا جائے۔ اس ہنگامی کیفیت میں فوری فیصلے کی ضرورت تھی کیونکہ جہاز نواب شاہ پہنچتا تو جنرل مشرف کی گرفتاری یقینی تھی، لہٰذا انہوں نے طیارے کا رُخ کراچی کی طرف موڑنے کی ہدایت کی۔
اس دوران میں انہوں نے جنرل مشرف کو کاک پٹ میں بلا کر انہیں بھی صورت حال سے آگاہ کر دیا اور انہیں تسلی دلائی کہ حالات کنٹرول میں ہیں۔ جنرل مشرف اور جنرل افتخار کے پرانے گھریلو تعلقات تھے، اس لیے انہوں نے جنرل افتخار سے اپنے کتوں کے نام معلوم کرکے مزید تسلی کر لی کہ انہیں کہیں دھوکا تو نہیں دیا جا رہا، یوں جہاز بحفاظت کراچی میں اتر آیا۔ جہاز لینڈ ہوا تو یہ جنرل مشرف ہی تھے جو سب سے پہلے باہر آئے، جنرل عثمانی اور دو تین دیگر مسلح افسروں نے سلیوٹ کر کے ان کا خیر مقدم کیا لیکن جنرل مشرف اس کے باوجود پراعتماد نہیں تھے۔ کچھ سوچ کر انہوں نے جنرل عثمانی سے سوال کیا کہ جہاز میں ان کی اہلیہ بھی موجود ہیں کیا وہ طیارے سے باہر آ سکتی ہیں؟ جنرل عثمانی کا جواب اثبات میں تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے اسٹاف افسر میجر ظفرکو ہدایت کہ وہ بیگم صاحبہ کو طیارے سے باہر لائیں۔
اس دوران وہ جنرل مشرف کو لے کر وی آئی پی لاؤنج پہنچ گئے جہاں تازہ دم ہونے کے لیے وہ فوراً ہی واش روم چلے گئے۔ جنرل مشرف جیسے ہی فریش ہو کر باہر آئے، جنرل عثمانی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی اور انہوں نے کہا: ’مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ آپ کو گرفتار کر لیا جائے۔یہ سُن کر جنرل مشرف کے چہرے پریشانی عیاں ہو گئی، اُن کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے جنرل عثمانی نے فوراً ہی انہیں اطمینان دلاتے ہوئے کہا: ’بے فکر رہیں سر! حالات قابو میں ہیں۔‘ اس کے بعد وہ انہیں باہر لائے اور انہیں ان کی گاڑی پر سوار کرا دیا، گاڑی پر چیف آف آرمی اسٹاف کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔گویا ایک مرحلہ کامیابی سے طے ہو چکا تھا، اب ایک نئی مہم درپیش تھی۔
کور ہیڈ کوارٹر پہنچنے تک جنرل پرویز مشرف اپنے ذہن میں بہت سے فیصلے کر چکے تھے چنانچہ انہوں نے وہاں پہنچتے ہی ہدایت کی کہ ان کا خطاب نشر کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے آئی ایس پی آر کی مقامی قیادت یعنی کرنل اشفاق حسین کی تلاش شروع ہوئی، وہ ابتدائی چند گھنٹوں تک راولپنڈی میں آئی ایس پی آر کی مرکزی کمانڈ سے ہدایات حاصل کرنے کےلیے رابطوں کی کوشش میں ناکامی کے بعد کور کمانڈر کی رہائش گاہ فلیگ اسٹاف ہاؤس اور آرمی ہاؤس سے ہوتے ہوئے کور کمانڈر آفس پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ تقریر لکھی جا رہی ہے، چنانچہ وہ اسے نشر کرانے کے انتظامات میں مصروف ہوگئے۔ انہوں نے پی ٹی وی کو ریکارڈنگ ٹیم کور ہیڈکوارٹر بھیجنے کی ہدایت تو ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز اطہر وقار عظیم نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے اگر وہ خود وہاں پہنچ کر اس کے انتظامات کریں۔
اس وقت فوج نے پی ٹی وی کراچی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ اس صورت حال میں کسی کا اندر جانا اور باہر نکلنا ناممکن تھا۔ کرنل اشفاق وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ٹی وی کا عملہ گذشتہ کئی گھنٹوں سے وہاں بھوکا پیاسا محصور تھا، انہوں نے غیر ضروری عملے کے وہاں سے نکلنے کے انتظامات اور دیگر لوگوں کے کھانے پینے کا بندوبست کیا اور ہدایت کی کہ ٹیلی ویژن سے یہ اعلان نشر کیا جائے کہ جنرل مشرف کچھ دیر کے بعد قوم سے خطاب کریں گے۔
اطہر وقار عظیم نے اس سے معذوری کا اظہار کیا اور بتایا کہ ٹی وی کا سگنل بند ہے، اس لیے وہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ چند منٹ کے رابطوں کے بعد کرنل اشفاق ٹیلی ویژن کی نشریات بحال کرانے میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح جنرل مشرف کے خطاب کی اطلاع نشر کرنے کی راہ میں یہ حائل رکاوٹ دور ہوگئی۔
اعلان نشر کرنے کا انتظام تو ہو گیا لیکن اب ان لوگوں کے سامنے یہ سوال آن کھڑا ہوا کہ جنرل مشرف کس حیثیت سے قوم سے خطاب کریں گے؟ کرنل اشفاق نے لکھا ہے کہ جب وہ کور ہیڈکوارٹر سے روانہ ہوئے تھے تو اس وقت تک یہ سوال ان کے سامنے نہیں تھا، اس کا مطلب یہ تھا کہ اب فیصلے کی تمام تر ذمہ داری اُن پر آ پڑی ہے۔ اس مرحلے پر اُن کے ذہن میں کئی قسم کے خیالات نے یلغار کی، جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے: ’چیف (جنرل مشرف ) مزید چیف نہیں رہے تھے، وزیر اعظم انہیں برطرف کرنے کے اہل تھے تو اب ان کی حیثیت ہے تو ریٹائرڈ چیف آف آرمی اسٹاف کی۔
اصل پوزیشن کیا ہے؟ اگر ڈی جیور (قانونی حیثیت سے) نہیں تو حقیقی طور پر (ڈی فیکٹو) چیف تو ہیں۔ کور ہیڈ کوارٹر جا کر کسی سے مشورہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیوں کہ ہمارے سوال پوچھنے پر جی ایچ کیو میں جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ سے رابطہ کیا جانا تھا اور پھر ایک لمبی بحث چھڑ جاتی۔ قوم یہ جاننے کی منتظر تھی کہ کیا ہو رہا ہے، کیا ہوگیا ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہم شاید مارشل لا کے نفاذ میں تاخیر تو کر سکتے تھے۔ ماضی میں اس کی مثال موجود تھی جب چیف نے چیئرمین سینیٹ کو دعوت دی کہ وہ صدر کا عہدہ سنبھال لیں۔
شاید اب بھی ایسا ہو جائے؟ ہم نے سوچا، چلیں، چیف کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کا موقع دیتے ہیں شاید دانائی غالب آ جائے۔خیالات کا یہ سلسلہ تھما تو وہ ایک نتیجے پر پہنچ چکے تھے، انہوں نے ہدایت کی کہ صرف اتنا اعلان نشر کیا جائے: ’چیف آف آرمی اسٹاف قوم سے خطاب کریں گے۔‘ عام حالات میں اگر ایسی اطلاع زبانی بھی دی جاتی تو کافی ہوتا لیکن اس وقت صورت حال غیر معمولی تھی اور ٹیلی ویژن والے بہت محتاط تھے، یہی سبب تھا کہ انہوں نے اعلان کی عبارت لکھ کر دینے کا مطالبہ کیا۔
کرنل اشفاق نے یہ اعلان جب اپنے ہاتھ سے لکھ کر ان کے حوالے کیا تو اس پر دستخط کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا جسے پورا کرکے اعلان کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کی گئیں۔ کرنل اشفاق ٹیلی ویژن کی ٹیم لے کر کور ہیڈکوارٹر پہنچے اور ریکارڈنگ کے انتظامات شروع کر دیے گئے، اس دوران میں تقریر بھی تیار ہو چکی تھی۔ تقریر کرنل اشفاق کے حوالے کی گئی کہ ایک نگاہ وہ بھی اس پر ڈال لیں۔ یہ تقریر کیسے لکھی گئی؟ جنرل مشرف نے اپنی کتاب ’سب سے پہلے پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ میں نے تقریر اپنے ہاتھ سے لکھنی شروع کر دی، جب وہ مکمل ہو گئی تو ساتھیوں نے اس کی منظور ی دے دی۔
یہ ساتھی کون تھے؟ کتاب ان کے بارے میں خاموش ہے۔ کرنل اشفاق نے مجھے (عادل فاروق) کو بتایا کہ یہ تقریر منگلا کور سے تعلق رکھنے والے ایک میجر جنرل اقبال نے لکھی تھی۔ یہ فوجی انداز میں لکھی گئی ایک تحریر تھی جسے تقریر کی زبان میں بدلنے کے لیے کافی محنت کی ضرورت تھی۔ کرنل اشفاق نے جنرل عثمانی کو اپنی رائے بتائی تو انہوں نے کہا کہ فوراً نئی تقریر لکھ دو جس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ کام وقت طلب ہے اور اگر انہوں نے تقریر جلد تیار کر لی تو بھی اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہو گی، نئی تجاویز سامنے آئیں گی اور اس طرح بہت تاخیر ہو جائے گی اور قوم انتظار کی سولی پر ٹنگی رہے گی۔
’پھر کیا کیا جائے؟‘ جنرل عثمانی نے الجھ کر سوال کیا۔اس پر کرنل اشفاق نے تجویز پیش کی کہ اکٹھے بیٹھ کر تقریر تیار کر لی جائے۔ اکٹھے سے ان کی مراد یہ تھی کہ اس میں تین افراد شامل ہوں یعنی جنرل پرویز مشرف، جنرل مظفر عثمانی اور کرنل اشفاق۔ تجویز سے اتفاق کر لیا گیا۔جنرل عثمانی نے جنرل مشرف کو اس تجویز سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اسے پسند کیا لیکن جب یہ لوگ تقریر لکھنے بیٹھے تو ایک چوتھا شخص بھی درمیان میں موجود تھا۔ یہ صاحب منگلا کور کے میجر جنرل اقبال تھے جنہوں نے تقریر کا پہلا مسودہ تیار کیا تھا۔ اس تقریر کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اور اس کے بعد اللہ اکبر لکھا گیا تھا۔ یہ چاروں افراد ایک برج (Bridge) ٹیبل کے گرد بیٹھ گئے۔
جنرل مشرف کے عین سامنے کرنل اشفاق تھے، دائیں جانب جنرل عثمانی اور ان کے سامنے جنرل اقبال۔ سب لوگ بیٹھ گئے تو کرنل اشفاق سے کہا گیا کہ اپنے اعتراضات بیان کریں۔ کرنل اشفاق نے پہلا پیراگراف پڑھا اور اس پر اعتراض کیا کہ اوّل تو یہ تقریر کی زبان نہیں اور دوسرے اس کا لب ولہجہ عوامی کے بجائے فوجی ہے جس کے مخاطب فوجی تو ہوسکتے ہیں، عام شہری نہیں۔
جنرل اقبال نے ان اعتراضات کے رد اور اپنی تقریر کے دفاع میں بات شروع کی تو جنرل مشرف نے کرنل اشفاق کے اعتراضات درست قرار دے کر جنرل کو خاموش کرا دیا۔ اس کے بعد کرنل اشفاق نے وہیں بیٹھے بیٹھے متبادل پیرا گراف لکھ کر سُنایا، جنرل مشرف نے اس کی منظوری دے دی۔
اس طرح پہلی تقریر کے ابتدائی چار پیر ے مسترد اور متبادل پیرے یکے بعد دیگرے منظور ہوگئے تو جنرل اقبال میز سے اٹھ کر کمرے کے ایک طرف کھڑے بعض دیگر افسروں میں شامل ہوگئے اور تھوڑی دیر کے بعد کمرے سے بھی باہر چلے گئے۔ اس دوران ایک ایک پیرا کر کے کرنل اشفاق تقریر لکھتے چلے گئے اور اس کی منظوری ملتی چلی گئی۔
اب تقریر ریکارڈنگ کےلیے تیار تھی لیکن اب سوال یہ درپیش تھا کہ جنرل صاحب کس لباس میں تقریر ریکارڈ کرائیں گے؟ جنرل صاحب اس وقت غیر فوجی لباس میں تھے، فیصلہ ہوا کہ وہ کمانڈو کی وردی میں قوم کے سامنے آئیں گے، چنانچہ کسی کمانڈو کو تلاش کرکے اس کی جیکٹ لی گئی جو جنرل صاحب کے سائز سے کافی بڑی تھی، جسے کلپ لگا کر ان کے جسم کے برابر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش ناکام ہوگئی کیوں کہ جیکٹ کا سائز ان کے جسم سے بہت ہی بڑا تھا جس کا اندازہ پہلی ہی نگاہ میں ہوگیا۔
یونیفارم پر اسے پہننے والے کا نام بھی ہوتا ہے، جنرل صاحب کی یونیفارم پر ان کا پورا نام ہوتا تھا یعنی انگریزی میں پرویز مشرف، اس وقت یہ مکمل نام دستیاب نہیں ہو سکتا تھا، لہٰذا وہاں پرویز نام کے کسی فوجی کا بیج حاصل کیا گیا، یہ نمائندہ اس تقریر کے چند روز کے بعد کسی کام سے آرمی ہاؤس کراچی گیا تووہاں ایک افسر نے اپنے میز کی دراز سے یہ بیج اسے نکال کر دکھایا۔
پنجاب کے مختلف اضلاع میں دفعہ 144 نافذ
جنرل مشرف یہ تقریر لے کر کور کمانڈر کے دفتر میں چلے گئے جہاں ریکارڈنگ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جنرل صاحب سے درخواست کی گئی کہ وہ تقریر کا پہلا پیرا بطور ریہرسل پڑھ دیں۔ جنرل مشرف نے اسے پڑھا تو ان کے لہجے پر سفر کی تھکن اور اعصابی دباؤ کے آثار نمایاں تھے۔ یوں کرنل اشفاق اب ایک اور مشکل مرحلے سے دوچار ہوگئے، فوج کے سربراہ کے سامنے اور وہ بھی ایسا جو اب ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا، یہ کہنا آسان نہ تھا کہ وہ اعصابی تناؤ کا شکار ہیں، اس کے باوجود وہ آگے بڑھے اور انہوں نے جنرل مشرف سے درخواست کی کہ ان کےلیے جوس منگوا لیا گیا ہے براہ کرم وہ اس سے لطف اندوز ہوں اور اپنے لہجے میں توانائی پیدا کرنے کے بعد ریکارڈنگ کرانے کی ایک کوشش اور کریں۔
جنرل صاحب اس مطالبے پر چونک گئے اور سوالیہ نگاہوں سے جنرل عثمانی کی طرف دیکھا۔ جنرل عثمانی نے شانے اچکائے اور کیمروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ وقتی طور پر تو یہی لوگ اتھارٹی ہیں۔ جنرل مشرف کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کے بعد انہوں نے اعتماد کے ساتھ تقریر ریکارڈ کرائی۔
ریکارڈنگ مکمل ہونے پر ایک اور مشکل مرحلہ پیش آ گیا۔ آخری پیرا گراف میں ان سے دو الفاظ کی ادائیگی کے دوران فنبل ہو گئے تھے جسے کرنل اشفاق نے محسوس کیا یا پھر اطہر وقار عظیم نے۔ جنرل صاحب کو آگاہ کیا گیا تو انہوں نے ذرا گھبراہٹ سے پوچھا کہ کیا پوری تقریر دوبارہ ریکارڈ ہوگی؟ انہیں بتایا گیا نہیں، صرف آخری پیرا۔ یوں انہوں نے مطمئن ہو کر یہ پیرا دوبارہ ریکارڈ کرا دیا۔ رات ایک بج کر چالیس منٹ پر یہ مہم سر ہوئی تاہم جنرل مشرف نے لکھا ہے کہ ایسا ڈھائی بجے شب ہوا تھا۔
ریکارڈنگ مکمل ہوئی تو سب نے اطمینان کا سانس لیا لیکن ایک امتحان ابھی باقی تھا۔ ٹیلی ویژن کا ایک افسر کرنل اشفاق کے پاس آیا اور سوال کیا کہ تقریر نشر کرتے وقت کیا پروٹوکول اختیار کیا جائے گا؟
یہ ایک نہایت پیچیدہ اور خطرناک سوال تھا۔ کرنل اشفاق نے انہیں بتایا کہ جنرل صاحب ابھی صرف چیف آف آرمی اسٹاف ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ قومی ترانہ نا بجایا جائے، یوں یہ تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد یہ تقریر رات دو بج کر 45 منٹ پرنشر کرنے کی نوبت آئی۔
کرنل اشفاق کہتے ہیں کہ ایک علامت کے طور پر قومی ترانے کے نہ چلائے جانے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بجائے صرف آرمی چیف کی حیثیت سے اُن کی تقریر کے نشر کرانے کے پس پشت ایک حکمت یہ بھی پوشیدہ تھی کہ ممکن ہے کہ آگے چل کر دانائی غالب آ جائے اور 17 اگست کے واقعے میں جنرل اسلم بیگ نے جیسے چیئرمین سینیٹ کو صدارت کا منصب سنبھال کر مارشل لا کا راستہ روکا تھا، ایسی ہی کوئی صورت اب بھی پیدا ہو جائے۔
لیکن جنرل مشرف نے اپنی تقریرمیں اپنے لیے چیف ایگزیکٹیو کے عہدے کا اعلان کر کے یہ راستہ بند کر دیا اور یوں قوم ایک ایسے سفر پر ایک بار پھر گامزن ہو گئی جس کا تجربہ اسے پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا۔