رفیق تارڑ نے پرویز مشرف کو کیسے شرمندگی سے دوچار کیا؟
پاکستان کے 9 ویں صدر جسٹس رفیق تارڑ نے جنرل پرویز مشرف کی جانب سے خود کو زبردستی صدارت سے نکالنے پر اپنا احتجاج مشرف کے آخری سیلوٹ کا جواب نہ دے کر ریکارڈ کروایا جس سے اقتدار کا بھوکا جرنیل شرمندگی کی دلدل میں دھنس گیا۔
7 مارچ 2022 کو طویل علالت کے بعد بانوے برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر جانے والے سابق صدر جسٹس ریٹائرڈ محمد رفیق تارڑ عدالتی حکم امتناع پر صدرِ مملکت کا انتخاب لڑنے والی واحد پاکستانی سیاسی شخصیت تھے۔ رفیق تارڑ کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ وہ ملک کے ان سویلین صدور میں سے ایک تھے جو اپنے عہدے کی آئینی مدت مکمل نہ کرسکے اور انہیں ووٹ سے پہلے ہٹا دیا گیا۔ یاد رہے کہ وہ صدر فاروق احمد خان لغاری کے مستعفی ہونے کے بعد 1998میں صدرِ کے منصب پر فائز ہوئے۔ فاروق لغاری نے اپنی محسن بے نظیر بھٹو سے غداری کرتے ہوئے ان کی حکومت ختم کر دی تھی جس کے بعد وہ خود بھی مکافات عمل کا شکار ہوئے اور نواز شریف حکومت کے ہاتھوں نکالے جانے سے بچنے کے لیے مستعفی ہوگئے۔
12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد پرویز مشرف نے جب رفیق تارڑ پر استعفیٰ دینے کے لئے دباؤ ڈالا تو انہوں نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ چیف ایگزیکٹو یعنی پرویز مشرف میرا ماتحت ہے، اس لیے میں اس کو استعفیٰ نہیں دوں گا۔ بہرحال جب حالات دگرگوں ہوئے اور بندوق والوں نے ان پر براہ راست استعفے کے لیے دباؤ ڈالا تو رفیق تارڑ نے مصلحتاً مستعفی ہوئے بغیر ایوان صدر سے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی لمحے آرمی چیف اور چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر براجمان پرویز مشرف نے انہیں سیلوٹ کیا لیکن رفیق تارڑ نے روایت کے برخلاف سیلوٹ کا جواب نہ دے کر مشرف کو شرمندگی اور خجالت کی دلدل میں دھکا دے دیا۔ یوں 2001 میں رفیق تارڑ غیر آئینی طریقے سے اپنے عہدے سے ہٹا دیئے گئے۔
دو نومبر 1929 کو پنجاب کے علاقے پیر کوٹ میں پیدا ہونے والے رفیق تارڑ کئی آئینی عہدوں پر فائز رہے اور وکالت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے صدر مملکت کے عہدے تک پہنچے۔ سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کے بارے میں ایک متنازع انٹرویو دینے کی وجہ سے رفیق تارڑ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے تھے۔ تاہم انہوں نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کیا اور یوں وہ صدر پاکستان کا انتخاب لڑنے کے اہل ہونے والے واحد صدر مملکت بنے۔
رفیق تارڑ نے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کی اور پھر کچھ عرصے بعد ضلعی عدلیہ سے منسلک ہوگئے۔ وہ اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نقاد بھی رہے۔ سیشن جج کے عہدے سے رفیق تارڑ لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے اور پھر اسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ 1994 میں وہ 65 برس کے ہونے پر سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے اور پھر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پنجاب سے سینیٹر بنے۔ نواز شریف کے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے اور تنازع شدت اختیار کر گیا تو سینیٹر رفیق تارڑ نے نواز شریف کا ساتھ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان تنازعے کے دوران سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں جسٹسز پر مشتمل بینچ نے اپنے چیف جسٹس کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس فیصلے سے جسٹس سجاد علی شاہ کی پوزیشن کمزور ہوئی۔ مختلف حلقوں میں یہ بات گردش کرتی رہی کہ اس فیصلے کے پیچھے سینیٹر رفیق تارڑ کا اہم کردار رہا ہے اور ان کی کوششوں سے یہ فیصلہ آیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی پوزیشن کمزور ہونے کے بعد اس وقت کے صدر مملکت فاروق لغاری، جو ان کے ساتھ تھے، اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ نئے صدر مملکت کے لیے سینیٹر رفیق تارڑ نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے لیکن چیف الیکشن کمشنر اور سپریم کورٹ جسٹس مختار جونیجو نے ہفت روزہ ’تکبیر‘ میں عدلیہ مخالف انٹرویو پر ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے۔
رفیق تارڑ نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو جسٹس ملک محمد قیوم نے انہیں مشروط طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔ بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے رفیق تارڑ کی درخواست منظور کرلی اور چیف الیکشن کمشنر کے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
صدارتی انتخاب میں رفیق تارڑ نے اپنے مدمقابل سابق وزیر دفاع اور پیپلز پارٹی کے رہنما آفتاب شعبان معرانی کو شکست دی اور ملک کے 9 ویں صدر مملکت منتخب ہو گئے۔ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت ختم کی لیکن رفیق تارڑ کو عہدے سے نہیں ہٹایا۔ تاہم جنرل مشرف جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کے لیے بھارت جانے لگے تو انہوں نے رفیق تارڑ کو عہدے سے ہٹا کر خود صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا۔ رفیق تارڑ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے واحد باریش صدر مملکت تھے۔ وہ مذہبی خیالات رکھتے لیکن انہیں مذاق پسند تھا۔ سینیٹر بننے کے بعد انہوں نے ایک مقامی اردو اخبار میں کالم نگاری بھی کی۔
How did Rafiq Tarar embarrass Pervez Musharraf? News In Urdu