KPKپولیس کو دی گئی اینٹی ڈرون گن دہشتگردوں کے ہاتھ کیسے لگی؟

خیبرپختونخوا پولیس کو فراہم کی گئی اینٹی ڈرون گن کے عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے کی خبروں نے عوامی اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک جانب طالبان نواز سہیل آفریدی حکومت شدید تنقید کی زد میں ہیں، جبکہ دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت اس معاملے پر وضاحتیں پیش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ جدید ہتھیار آخر عسکریت پسندوں تک کیسے پہنچا؟ کیا خیبرپختونخوا کی طالبان نواز حکومت نے اس حوالے سے سہولتکاری کی؟ اس جرم میں ملوث افراد بے نقاب کب ہونگے؟
خیال رہے کہ جمعے کے روز سوشل میڈیا پر مقامی ذرائع کے حوالے سے کچھ خبریں گردش کرنی شروع ہوئیں، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ بنوں سے ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ عسکریت پسندوں کے ایک گروہ نے ڈرون شکن بندوق حاصل کر لی ہے۔ ان تمام تر افواہوں کی بنیاد بظاہر ایک تصویر تھی، جس میں گہرے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس ایک شخص زمین پر ایک گن کیس نما ڈبا لیے بیٹھا ہے جبکہ ساتھ ہی ایک ٹرائی پوڈ سٹینڈ پر ایک گن نصب ہے۔ تصویر میں دکھائی دینے والی بندوق کے اوپری حصے پر ٹیلی سکوپ نصب تھی۔
سوشل میڈیا پر یہ تصویر وائرل ہونے کے بعد احمد منصور نامی صحافی نے ایکس پر دعویٰ کیا کہ ’خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پولیس کو دیے گئے ڈرون جیمرز دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔‘ انھوں نے ایکس پر اپنی پوسٹ کے ساتھ ایک تصویر بھی شیئر کی، جس میں ایک طرف مبینہ عسکریت پسند گروہ کی تصویر تھی جس میں اینٹی ڈرون گن دکھائی دے رہی ہے جبکہ دوسری جانب لگائی گئی تصویر میں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی بظاہر اسی ڈیزائن کی ایک اینٹی ڈرون گن صوبے کے اعلیٰ پولیس اہلکاروں کے حوالے کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ احمد منصور نے اپنی پوسٹ میں مزید دعویٰ کیا کہ تصویر میں وزیرِ اعلی کی جانب سے پولیس کو جو گن دی جا رہی ہے وہ سفراہ ڈرون جیمر ہے، جو چند روز پہلے ہی خیبر پختونخوا پولیس کے حوالے کیا گیا ہے جبکہ ویسی ہی بندوق عسکریت پسندوں کی جانب سے شیئر کی جانے والی تصویر میں بھی نظر آ رہی ہے۔ احمد منصور کے دعوے کے بعد تو خیبرپختونخوا حکومت سوشل میڈیا صارفین کے نشانے پر آ گئی۔
کئی صارفین تصویر میں گن کے پچھلے حصے پر نظر آنے والے لوگو کے بارے میں دعویٰ کرتے نظر آئے کہ جو جیمرز خیبر پختونخوا حکومت کو دیے گئے تھے ان پر بھی ہو بہو ایسا ہی لوگو بنا ہوا تھا۔ صارفین کا دعویٰ ہے کہ یہ وفاقی وزارتِ دفاع کے ماتحت ادارے کا لوگو ہے۔ جس کے تیارکردہ جیمرز خیبرپختونخوا حکومت کو فراہم کئے گئے تھے جو اب عسکریت پسندوں کے پاس پہنچ چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر تنقید بڑھنے کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کی آنکھ بھی کھل گئی اور وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کےایک ترجمان نے صحافی احمد منصور کے پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’سوشل میڈیا پر بعض اکاؤنٹس کی جانب سے خیبرپختونخوا پولیس کے جدید اینٹی ڈرون اسلحہ کے طالبان کے قبضے میں جانے سے متعلق جو خبریں گردش کر رہی ہیں، وہ سراسر جھوٹ، بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہیں۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ خیبرپختونخوا پولیس کا اینٹی ڈرون اسلحہ لاجسٹک سٹور میں محفوظ ہے، لہذا اس حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘
یاد رہے کہ حالیہ دنوں پشاور میں پولیس لائن میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے بلٹ پروف گاڑیاں، اسلحہ اور جدید آلات پشاور پولیس کے حکام کے حوالے کیا تھا۔صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کو دیے گئے جدید اسلحے میں اینٹی ڈرون گن اور اینٹی ڈرون سسٹم بھی شامل تھے۔
واضح رہے کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے قبائلی علاقوں اور ضلع بنوں میں کواڈ کاپٹر یا ڈرونز کے ذریعے حملوں کی مسلسل اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق خیبر پختونخوا میں شدت پسند سستے چینی کواڈ کاپٹر میں رد و بدل کر کے اور ان میں بارودی مواد نصب کر کے حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم سکیورٹی اداروں کی جانب سے ان ڈرون حملوں کو روکنے کے مختلف لائحہ عمل اپنائے جا رہے ہیں اور خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے پولیس کو دی گئی اینٹی ڈرون گنز اور اینٹی ڈرون سسٹم اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ تاہم اب اس اینٹی ڈرون گن کے دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کی خبروں نے سیکیورٹی اداروں کی اس حکمت عملی پر سوالات اٹھا دئیے ہیں۔
