فوج کو سیاست میں گھسیٹنے والے عمران کو فوج نے کیسے گھسیٹا؟

 

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کے تمام جرائم معاف کر دیے جائیں تو بھی ان کے تین جرائم ایسے ہیں جو ناقابلِ معافی رہیں گے۔ ان کے مطابق عمران کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دوبارہ سیاست میں گھسایا، حالانکہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد فوج عملی طور پر سیاست سے باہر ہو چکی تھی۔

اپنے سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ 2008 میں پیپلز پارٹی اپنی قوت کے بل پر حکومت میں آئی اور اپنی آئینی مدت بھی پوری کی۔ 2013 کے انتخابات بھی بقول ان کے سیاسی انجینئرنگ سے پاک تھے اور ملک ایک ایسی سمت کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں چند برسوں میں جمہوریت مکمل طور پر آزاد ہو سکتی تھی، مگر عمران خان جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کو دوبارہ سیاست میں لے آئے جس کے نتیجے میں جمہوری سفر رک گیا۔

جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ جب جنرل عاصم منیر نے آرمی چیف کی ذمہ داری سنبھالی تو انہوں نے ابتدا ہی میں فوج کو مکمل طور پر غیر سیاسی بنا دیا تھا۔ ان کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انہیں بتایا تھا کہ مئی 2023 تک فوج اتنی غیر سیاسی ہو چکی تھی کہ کسی افسر کی جانب سے ان سے سیاسی گفتگو تک نہیں کی جاتی تھی۔ جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو 2023 کے آخر تک صورت حال یکسر تبدیل ہو جاتی، لیکن عمران خان کے سوشل میڈیا بیانیے اور احتجاجی حکمت عملی نے حالات کو پھر تلخ کر دیا۔ ان کے بقول 9 مئی کو تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی جانب سے ملک کے مختلف علاقوں میں فوجی تنصیبات پر حملوں نے وہ آخری ضرب لگائی جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ پوری قوت کے ساتھ واپس آگئی اور اب اس کے دوبارہ غیر سیاسی ہونے کے راستے بند ہو چکے ہیں۔

سینئیر صحافی کا کہنا ہے کہ عمران خان آج بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ان بند راستوں کے سامنے نئی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں اور یہی عمل ان کے نزدیک عمران خان کا پہلا ناقابلِ معافی جرم ہے۔ جاوید چوہدری کے مطابق عمران خان کا دوسرا ناقابلِ معافی جرم ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو دوبارہ زندگی دینا ہے۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی آصف زرداری کی طرزِ سیاست کے باعث زمین میں دھنس چکی تھی اور مسلم لیگ ن بھی اپنی سیاسی زندگی پوری کر چکی تھی، مگر عمران خان کی سیاسی حکمت عملی نے ان جماعتوں کو نئی توانائی بخش دی۔ ان کے بقول سیاسی تاریخ کے یہ ازلی مخالف آج عمران خان کی خار میں اکٹھے ہو کر اقتدار بانٹ رہے ہیں، اور عمران خان روزانہ اپنے بیانیوں کے ذریعے ان کے باہمی اتحاد کو مزید مضبوط کرتے جا رہے ہیں۔

جاوید چوہدری کے مطابق عمران خان کا تیسرا ناقابلِ معافی جرم ملک میں بدتمیزی کا کلچر متعارف کروانا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ عمران خان کے طرزِ سیاست نے پوری قوم کو تلخ اور بدتمیز بنا دیا ہے۔ ان کے مطابق لندن میں شریف فیملی کے گھر کے باہر جو کچھ ہوتا رہا، بیرون ملک مریم اورنگزیب اور عطا تارڑ کے ساتھ جس نوعیت کا سلوک کیا گیا، عمرہ کے دوران مسجد نبویؐ میں وزراء کے ساتھ جو نازیبا رویہ اپنایا گیا اور صحافی شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ ان کی اہلیہ کے سامنے جو کچھ ہوا، یہ سب عمران خان کی جانب سے متعارف کروائے گئے بدتمیزی کے کلچر کی مثالیں ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران اور ان کے چاہنے والے بدتمیزی کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ کسی بھی سوشل میڈیا ایپ کے کمنٹس پڑھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ لوگ کس حد تک بدتہذیبی میں ڈوب چکے ہیں، لیکن گندی گالیاں لکھنے والے یوتھیوں کو کسی قسم کی شرم محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس معاشرتی بگاڑ کے واحد ذمہ دار عمران خان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2014 سے 2025 تک عمران خان خود جگہ جگہ اعلان کرتے رہے کہ ان کے سیاسی مخالفین گلیوں میں نہیں نکل سکیں گے، وہ شادیوں اور جنازوں میں شریک نہیں ہو سکیں گے اور مسجدوں میں نماز تک نہیں پڑھ سکیں گے، اور آج ملک میں یہی فضا دکھائی دیتی ہے۔

ان کے مطابق اس ماحول کی تشکیل میں فوج کے دو سابق افسران جنرل آصف غفور اور جنرل فیض حمید نے بھی کردار ادا کیا۔ انہوں نے عمران خان کے ساتھ مل کر ایسے ’’سیاسی زومبیز‘‘ Zombies تیار کیے جو بعد میں فوج کے خلاف بھی کھڑے ہو گئے اور شہداء کی یادگاریں تک محفوظ نہ رہیں۔ جاوید چوہدری ایک ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملک کی ایک طاقتور شخصیت نے ان سے پوچھا کہ عمران خان کیا چیز ہے؟ جاوید کے مطابق انہوں نے جواب دیا کہ عمران خان منحوس ہے اور اس پر ’’نحوست‘‘ کا سایہ ہے لہٰذا جو بھی شخص ان کے ساتھ جڑتا ہے، اس کی عزت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ان کے بقول اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی ایک معزز خاتون تھیں اور اپنے خاندان میں محترم سمجھی جاتی تھیں، لیکن عمران خان سے تعلق کے بعد وہ عدالتوں اور میڈیا میں موضوعِ بحث بن گئیں اور آج ان کا خاندان بھی مشکلات کا شکار ہے اور وہ خود جیل میں ہیں۔

جاوید چوہدری کے مطابق یہی حال جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید، جنرل آصف غفور، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ سمیت کئی شخصیات کا ہوا، یہاں تک کہ مولانا طارق جمیل تک اس لپیٹ میں آگئے جن کی عزت کا وقار بھی بقول ان کے متاثر ہوا۔

جاوید چوہدری کے مطابق اسی طاقتور شخصیت نے ان سے دوسرا سوال یہ کیا کہ پھر لوگ آخر اس منحوس شخص کے دیوانے کیوں ہیں؟ جاوید کے بقول انہوں نے جواب دیا کہ پاکستان میں ایک مخصوص طرح کا پاگل پن موجود تھا جسے عمران خان نے لیڈرشپ فراہم کر دی۔ یوں یہ پاگل پن شدت پسندانہ جذبات سیاسی رنگ اختیار کر گئے۔ انکا کہنا یے کہ اسی لیے یہ پاگل عوام عثمان بزدار، علی امین گنڈا پور اور سہیل آفریدی جیسے لوگوں کو ہم پر تھوپنے والے عمران کو ’وژنری‘ اور ’ملک کا مستقبل‘ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ لوگ فوج کو عمران کی حمایت کرنے پر مقدس اور مخالفت کرنے پر فوراً برا قرار دے دیتے ہیں۔ بشریٰ بی بی کے وکلا عدالت میں ان کے ’’مخصوص ایام‘‘ تک گنوا دیں تو وہ پاک ٹھہرتی ہیں اور اگر شاہ زیب خانزادہ جیسا کوئی شخص سوال پوچھے تو اسے گستاخ کہہ دیا جاتا ہے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ یہی وہ سیاسی کیفیت ہے جس کی ’’برکت‘‘ پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کے اثرات سے وہ صحافی بھی محفوظ نہیں جو کبھی عمران خان کو اپنا ہیرو سمجھتے تھے، اسی لیے آج وہ بھی اسی ’نحوست‘ کے شکار ہیں۔

Back to top button