278 لاشوں کےجھوٹے دعوے نے لطیف کھوسہ کو جوکر کیسے بنا ڈالا؟

تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے اسلام آباد احتجاج کے دوران 278 افراد کے قتل کا جو شگوفہ چھوڑا تھا اس نے پارٹی کی ساکھ کا جنازہ تو نکالا ہی لیکن سردار لطیف کھوسہ کا سیاسی کیریئر بھی ختم کر دیا یے۔ اب کھوسہ کا تاثر ایک سیاست دان کی بجائے ایک جوکر کا بن چکا ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار روؤف کلاسرا اپنے سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ میں یہ راز کافی عرصہ ہوا جان چکا ہوں کہ اگر آپ کو زندگی میں کوئی لڑائی لڑنی پڑے تو اسے کے دو ہی طریقے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ لڑائی تب لڑیں جب آپ کو سو فیصد اپنے سچ پر یقین ہو اور آپ کے پاس حقائق موجود ہوں۔ دوسرا راز یہ ہے کہ حالات جو بھی ہوں آپ اس سچ پر ڈٹے رہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر آپ نے جھوٹ کے ذریعے کوئی جنگ لڑنی ہے تو وہ آپ کو فتح نہیں دلوا سکتی۔ یہ سب باتیں مجھے پی ٹی آئی کے چیئر مین بیرسٹر گوہر کی پریس کانفرنس سن کر یاد آرہی تھیں جس میں انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران مارے جانے والوں کی تعداد 12 کے قریب ہے۔

روؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ بیرسٹر گوہر خان کے اس بیان کے بعد پی ٹی آئی نے اب تک سوشل میڈیا اور ٹی وی پر جو بیانیہ بنایا تھا وہ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا۔ کہاں لطیف کھوسہ نے 278 لاشوں سے سلسلہ شروع کیا جو سو‘ پچاس سے ہوتا سینکڑوں لاشوں تک پہنچا اور آخرکار گوہر نے اعلان کیا کہ وہ لاشوں کے ان تمام اعدادوشمار سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پارٹی لیول پر صرف بارہ انسانی جانوں کے نقصان کو کنفرم کرتے ہیں۔ باقی جو کچھ کہا گیا ہے یا کہا جارہا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اندازہ کریں کہ اتنی بڑی پارٹی کا یہ حال ہے کہ سینکڑوں لاشوں کا کہنے کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ ان خبروں میں کوئی حقیقت نہیں۔

کلاسرا کے بقول پی ٹی آئی جھوٹ کا سہارا لے رہی تھی جو ناکام رہا۔ پی ٹی آئی لیڈروں کا خیال تھا کہ اگر شروع میں دس بارہ لاشوں کا کہیں گے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک میں بھلا دس بارہ بندے مرنے سے کیاہوتا ہے۔ یہاں درجنوں کے حساب سے تو لوگ سڑکوں پر حادثوں میں مارے جاتے ہیں۔ ستر ‘اسی ہزار بندہ تو دہشت گردی میں مارا گیا۔ ہم اگر دس بارہ لوگوں کی موت کا کہیں گے تو یہ بات لوگوں کے کانوں کے اوپر سے گزر جائے گی لہٰذا موقع بڑا اچھا ہے اور ہر طرف بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ‘ کوئی بڑا فگر دے دیں‘ آگ بھڑک اٹھے گی۔ نہ صرف پاکستان کے اندر ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا بلکہ پاکستان سے باہر بھی بہت بڑا ردعمل آئے گا جسے سنبھالنا پاکستانی حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گا۔

رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ یہ کام لطیف کھوسہ نے شروع کیا جب انہوں نے جیو ٹی وی کے شو میں بم پھوڑتے ہعئے کہا کہ 278 لوگ مارے گئے ہیں۔ کھوسہ کے اعتماد سے لگتا تھا کہ وہ شو میں آنے سے پہلے لاشیں گن رہے تھے اور ابھی ان لاشوں کی گنتی مکمل ہوئی ہے۔ جو لوگ اسلام آباد میں رہتے ہیں وہ کھوسہ کی اس بات پر ہنس رہے تھے کہ جب آپریشن ختم ہوا تو اس کے ایک گھنٹے بعد تو ڈی چوک کھل چکا تھا‘ اسلام آباد کی ٹریفک بحال ہوچکی تھی‘ رکاوٹیں ہٹائی جارہی تھیں۔ شاید خود کھوسہ کو بھی اندازہ نہ ہوگا کہ اگر جناح ایونیو اور ڈی چوک پر 278 گولیوں سے چھلنی لاشیں پڑی ہوں تو وہاں کیا قیامت کا عالم ہوگا‘ لیکن وہاں تو ٹریفک نارمل ہو چکی تھی۔

سوال یہ ہے کہ لطیف کھوسہ کو یہ نمبر کس نے دیا جسے انہوں نے ٹی وی چینل پر بریک کر دیا۔ اب انکا پارٹی چیئرمین کہہ رہا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا لیکن کھوسہ غائب ہے۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کی پارٹی تو صرف بارہ لاشوں کو مان رہی ہے تو باقی 266 لاشیں کہاں ہیں کیونکہ آپ تو وہ لاشیں خود گن کر آئے تھے؟ اگر آپ کی اپنی پارٹی ہی آپ کے دیے گئے فگرز پر یقین نہیں کرتی تو میڈیا یا لوگ کیسے کریں گے۔ لطیف کھوسہ بہت پرانے وکیل ہیں جو بینظیر بھٹو شہید سے صدر آصف زرداری تک سب کے مقدمات لڑ چکے ہیں۔وہ اس ملک کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز رہے جو کہ بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ لہازا سوال یہ یے کہ کیا اس لیول کے بندے کو یہ غیرذمہ دارانہ بات کرنی چاہیے تھی؟ کیا ایسا بیان دینا چاہیے تھا جس سے ملک میں آگ لگ جاتی اور ہنگامے شروع ہوجاتے۔ شاید یہی مقصد تھا کہ لوگ یہ سن کر گھروں سے باہر نکل آئیں گے اور یوں پی ٹی آئی جو مقصد چوبیس نومبر کی کال سے حاصل نہ کرسکی وہ اس بیان سے پورا کر لے گی کہ ایک رات میں 278 لوگ مارے گئے تھے۔

کلاسرا کہتے ییں کہ فرض کر لیں لطیف کھوسہ اور باقی پی ٹی آئی کے ان جھوٹے فگرز کے بعد ہنگامے شروع ہو جاتے تو کیا ہوتا؟ مزید لوگ مرتے‘ گھروں‘ دکانوں کو جلایا جاتا۔ خون کی ہولی کھیلی جاتی۔ اور جب تک پتا چلتا کہ یہ فیک نیوز تھی اس وقت تک تباہی ہو چکی ہوتیبکیونکہبہجوم سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ شکر کریں آپ کے 278نلاشوں والے جھوٹ کے باوجود یہ ملک‘ شہر اور سب سے بڑھ کر آپ کے اپنے گھر جلنے سے بچ گئے ہیں۔

Back to top button