قاضی پر ایکسٹینشن لینے کا الزام لگانے والے یوتھیے شرمندہ کیسے ہوئے؟

عمران خان کے بے لگام یوتھیوں کی جانب سے ایکسٹینشن کے الزام پر کردارکشی کا سامنا کرنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی تمام تر پشین گوئیوں کے برعکس ریٹائرمنٹ لے کر باوقار انداز میں گھر جا رہے ہیں۔ ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا وہ لوگ اپنے جھوٹے الزامات پر شرمندگی کا اظہار کریں گے جو پچھلے کئی مہینوں سے قاضی فائز عیسی پر ایکسٹینشن لینے کی کوشش کا الزام لگا رہے تھے۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ میں بہت سی بشری کمزوریاں ہوں گی،
لیکن میرا گمان ہے کہ ان کا شمار پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے چند بہترین جج صاحبان میں ہوگا، آپ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر پہلے مجھے دلائل پیش کرنے کی اجازت دیجئے۔ وطن عزیز میں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تو کیا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان کا کروفر ،رعب ،دبدبہ اور طنطنہ ہم سب نے دیکھا ہے۔ مگر فائز عیسیٰ چیف جسٹس بننے کے بعد بھی ہوٹر بجاتی گاڑیوں اور ہٹو بچو کی صدائوں کے ساتھ سفر کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ وہ بغیر کسی پروٹوکول اور سکیورٹی کے اپنے اہلخانہ کیساتھ گھومتے پھرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انتہاپسند نے انہیں اسلام آباد کی ایک بیکری پر اپنا ہدف بنا لیا جس کے بعد نام نہاد نام نہاد انقلابی یوتھیوں نے ناچ ناچ کر گھنگھرو توڑ ڈالے۔ جج ہوں یا جرنیل، پلاٹوں کی سیاست نے بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں منصف کی مسند پر براجمان اصحاب کیسے قانونی اور غیر قانونی طریقے سے پلاٹ الاٹ کرواتے رہے ہیں، یہ تفصیل بتانے کی چنداں ضرورت نہیں، مگر فائز عیسیٰ نے نہ صرف اپنے حصے کا پلاٹ لینے سے انکار کردیا بلکہ اپنی آبائی زمین بھی وقف کردی۔ آپ بغض کا شکار ہیں تو حکومت کو دی گئی زمین کی مالیت پر بال کی کھال اُتار سکتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ کسی اور جج کو تو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ جب قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے تو سیاسی افق پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے تھے، ان کے پیشرو جسٹس عمر عطا بندیال الیکشن کروانے بارے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کروانے میں ناکام رہے۔ اگر فائز عیسیٰ غیر لچکدار رویہ اختیار نہ کرتے تو شاید 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہوتا۔ فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے سے پہلے کئی اہم ترین مقدمات زیر التوا تھے۔ کئی چیف جسٹس آئے اور چلے گے لیکن ان مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہمت نہیں کر پائے۔ مثال کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے جوڈیشل مرڈر جسنے ایک تاریخی ذیادتی تسلیم کر لی اور یہ طے ہو گیا کہ انہیں غلط پھانسی دی گئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا معاملہ ہو، فیض آباد دھرنانظر ثانی درخواستیں ہوں، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو کالعدم قرار دینے پر دائر کی گئی ریویو پٹیشن ہو، یا آئین کے آرٹیکل 63A کو ازسرنو لکھنے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواست، فائز عیسی نے ان سب کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا۔

بلال غوری کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا معاملہ ہو یا پھر مخصوص نشستوں کا کیس، ہم خیال بنچ بنا کر مرضی کے فیصلے کرائے جا سکتے تھے، ماضی میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے مگر قاضی فائز عیسیٰ نے دونوں بار سپریم کورٹ کے تمام دستیاب جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ بنچ تشکیل دیئے۔وہ چاہتے تو اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے کہہ سکتے تھے کہ چیف جسٹس ہی ماسٹر آف روسٹر ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کو عدلیہ سے متعلق قانون سازی کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن جس طرح صدر آصف زرداری نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں اختیارات سرنڈر کرکے پارلیمنٹ کو دیئے تھے، اسی طرح فائز عیسیٰ نے مقدمات کو سماعت کیلئے مقرر کرنے اور بنچ تشکیل دینے کا اختیار تین رُکنی کمیٹی کو دے دیا۔ بلال غوری کے مطابق دو مواقع پر مجھے لگا کہ قاضی نے کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔ایک تو مبارک ثانی کیس میں سرنڈر کیا گیا۔ زمینی حقائق کے پیش نظر میں قاضی فائز عیسیٰ کو قصور وار تو نہیں سمجھتا لیکن اس سمجھوتے کیلئے کوئی باعزت طریقہ اختیار کر لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس کے علاوہ مخصوص نشستوں کے مقدمہ میں پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران بھی قاضی فائز عیسیٰ دفاعی پوزیشن پر نظر آئے اور یہ تاویل پیش کی گئی کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی غلط تشریح کی۔ میرے خیال میں یہ وضاحت پیش کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آخری بات یہ ہے کہ قاضی تو جارہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسلام آباد کے وہ چند مخصوص کورٹ رپورٹرز اپنے کئے پر نادم ہو کر شرمندگی کا اظہار کریں گے جنکا دعویٰ تھا کہ قاضی سب کچھ ایکسٹینشن لینے کیلئے کر رہا ہے؟

Back to top button